Book Name:Iman ke Salamti

(1)زبان کی حفاظت

حدیثِ پاک میں نجات کا پہلانسخہ یہ بیان کیا گیا کہ اَمْسِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ یعنی زبان کو روکے رکھ، یاد رکھئے! زبان کی حفاظت کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان اپنے لب سی لے اور ایک لفظ بھی زبان پر نہ لائے بلکہ زبان کی حفاظت کا مطلب  وہی ہے جو ہمارے  پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود ہی بہت واضح اور آسان انداز میں بیان فرمایا ہے :مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا اَوْ لِيَصْمُتْ یعنی جو اللہپاک اورقیامت کےدن پرایمان رکھتا ہےاسےچاہئےکہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔([1])

معلوم ہوا کہ زبان نیک باتوں اور ضرورتاً دُنیاوی جائز باتوں کیلئے استعمال کی جاسکتی ہے، البتہ فُضُول اور بیہودہ قسم کی باتوں سے تو مکمل پرہیز ہی کرنا چاہئے مگر بدقسمتی سے آج کل زبان کی حفاظت کرنے اور فُضُول گوئی بلکہ بیہودہ باتوں سے بھی بچنے کا رُجحان بہت کم ہوچکا ہے، ہماری اکثرِیَّت کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ جو منہ میں آیا بَک دیا! افسوس! اللہ پاک کی ناراضی کا احساس کم ہو گیا ہے۔ آئیے! زَبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی اَہمیّت کے بارے میں ایک حدیثِ پاک سُنئےاورزبان کی حفاظت کا ذہن بنائیے:چنانچہ

ایک لفظ جہنم میں جھونک سکتا ہے

پیارے آقا،مکی مَدَنی مصطفےٰصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشاد فرمایا:بندہ کبھی اللہ پاک کی خُوشنودی کی بات کہتاہے اور اُس کی طرف توجُّہ بھی نہیں کرتا (یعنی بعض باتیں


 

 



[1]مسلم، کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الجارالخ ، ص ۴۸،حدیث:۱۷۳