Book Name:Khud Kushi Kay Asbab

2)   قناعت کرنے والی اَسباب سے زیادہ اسباب پیدا کرنے والے ربِّ کریم پر نظر رکھتی ہے،اس طرح وہ غیروں کی مُحتاجی سے بچ جاتی ہے۔جبکہ قَناعت سے خالی اسلامی بہن  اسباب پر نظریں جما کر اِنہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتی ہے، اسی طرح وہ دوسروں سے اُمیدیں باندھتی اور ان سے توقعات وابستہ کرلیتی ہے۔

3) قناعت انسان کو خواہشات کا پیروکار بننے سے بچالیتی ہےاور اس کی بَرَکت سے زندگی سُکون اور اطمینان(Satisfaction) سے گزرتی ہے جبکہ خواہشات کی پیروی بے سکونی اور ذہنی دباؤ کو جنم دیتی ہے۔

4)     سب سے بڑھ کرقناعت کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے  اللہ  پاک اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رِضا حاصل ہوتی ہے۔فرمانِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے:اُس کے لیے خوشخبری ہے،جو اسلام کی ہدایت پائے او راس کی روزی ضرورت کے مطابق ہو اور وہ اس پر قناعت کرے۔ (ترمذی، کتاب الزھد،باب ماجاء فی الکفاف والصبر علیہ،۴/۱۵۶ ، حدیث: ۲۳۵۵)  

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                            صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

پیاری پیاری اسلامی بہنو! آج ہم قناعت سےبہت دُور ہوتی جارہی ہیں، شاید اسی لئے رزق میں بَرَکت نہ ہونےکی شکایات بہت عام ہیں۔غربت سے تنگ آکر خود کشی کے واقعات کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی ہیں،معاشرے کی اس بدترین صورتِ حال کی بہت بڑی وجہ قناعت کوعملاً چھوڑ دینا بھی ہے۔اس لئے قناعت کو اپنا ئیے، ایسا کرنے سے سکون  و اطمینان کے ساتھ سعادت مندی آپ کااستقبال کرے گی۔

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                           صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

تیسری وجہ ”مایوسی“

پیاری پیاری اسلامی بہنو! خود کشی کی ایک اور بنیادی وجہ ”مایوسی“بھی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ عام طور پر انسان کوسب سے زیادہ عزیز اپنی جان ہوتی ہے۔لیکن اگر حالات کمزورہونے کی وجہ سے زندگی وبالِ جان بن جائے اور اُمید کی کوئی روشن کِرن دکھائی نہ دے تو انسان قوتِ برداشت جواب دینے لگتی ہے اور زندگی سے راہِ فراراختیار کرنے کے علاوہ اورکوئی راستہ نظر نہیں آتا۔

یاد رکھئے! مایوسی بھی  خود کشی کی طرف لے جاتی ہے۔حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں،مگر اُمید کا دامن ہاتھوں سے نہیں چُھوٹنا چاہیے۔ایک آدھا بھرا ہوا گلاس میز پر رکھا ہو تو ایک اچھی امید والے انسان  کو وہ آدھا بھرا ہوا نظر آئے گا جبکہ ایک مایوس انسان کو یہی گلاس آدھا خالی دکھائی دیتا ہے۔اُمید اور نااُمیدی میں سوچ کا فرق ہوتا ہے،اللہ پاک کی رحمت پر نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ مُثْبَت (Positive)سوچیں اور مَنْفِی (Negative) سوچ کو قریب بھی مت آنے دیں۔ ایک مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ  ہمیشہ اللہ پاک کی رحمت سے اُمید رکھنے والا ہوتا ہے۔قرآنِ پاک میں بھی یہی حکم ہے،چنانچہ

پارہ 13سورۂ یوسف کی آیت نمبر87 میں ارشاد ہوتا ہے: