Book Name:Khud Kushi Kay Asbab

دنیا تو قید خانہ ہے

پیاری پیاری اسلامی بہنو!یقیناً  خود کشی کرنا گویا  خود کو مصیبتوں میں پھنسانا ہے، دنیا کی مصیبتیں قابلِ برداشت ہیں جبکہ آخرت میں ملنے والی تکالیف یقیناً ناقابلِ برداشت ہیں۔ اگر خدانخواستہ کسی کو خودکُشی کرنے کے وَسوَسے آئیں تو اس کو چاہئے کہ بیان کردہ وعیدوں سے خود کو ڈرائے ،عبرت حاصل کرے اور شیطان کے وار کو ناکام بنائے۔ اگر چِہ کیسی ہی پریشانیاں ہوں صبرو رِضا کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرے۔

یا د رکھئے!زندگی کے اس سفر میں انسان ہمیشہ ایک جیسی حالت میں نہیں رہتا۔کوئی دن اس کے لیے خوشخبری لے کر آتا ہے تو کوئی غم کا پیغام،کبھی خوشیوں کی بارشیں برستی ہیں تو کبھی مصیبتوں اور پریشانیوں کی آندھیاں چلتی ہیں۔ ان آندھیوں کی زد میں  کبھی  انسان کی ذات آتی ہے اور کبھی اس کا گھر تباہ ہوتا ہے۔اَلْغَرَض!مصیبتوں  اور پریشانیوں سے  سامنا ہوتا رہتا ہے، اسی لئے اسلام نے مصیبتوں پر صبر اور خوشی کے مواقع پر اللہ  پاک کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دی ہے۔

اللہ  پاک مسلمانوں کو امتحانات میں مُبْتَلا فرما کر ان کے گناہوں کو مٹا تا اور دَرَجات کو بڑھاتا ہے۔ جوخوش نصیب  انسان مصیبتوں اور آزمائشوں پر صَبْر کرنے میں کامیاب ہو جاتاہے ،وہ اللہ  پاک کی رَحمتوں کے سائے میں آجاتا ہے،چُنانچِہ

 پارہ2سورۃُ الْبَقَرۃ کی آیت نمبر 155 تا157 میں ارشادِ ربّانی ہے:

وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ- وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵) الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶) اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ -وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ(۱۵۷) (پ۲،  البقرۃ  :۱۵۵،۱۵۶،۱۵۷)                                                                   

تَرجَمَۂ کنزُالعرفان:اور ہم ضرورتمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کوخوشخبری سنا دو۔وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

پیاری پیاری اسلامی بہنو!غور کیجئے! قرآنِ پاک یہ فرما رہا ہے کہ اللہ  پاک مصیبتیں دے کر آزماتا ہے۔ اب جس بدنصیب نے ان میں بے صبری کا مظاہَرہ کیا،شورشرابا کیا، ناشکری کے کَلِمات زَبان سے ادا کئے یا بیزار ہو کر مَعَاذَاللہ خودکُشی کی راہ لی ،وہ اِس امتِحان میں بُری طرح ناکام ہوکر پہلے سے کروڑہا کروڑگُنا زائِد مصیبتوں کا حق دارہوگیا ۔بے صبری کرنے سے مصیبت تو جانے سے رہی، اُلٹا صَبْر کے ذَرِیْعے ہاتھ آنے والا عظیمُ الشّان ثواب بھی ضائِع ہو جاتا ہے جو کہ بذاتِ خود ایک بَہُت بڑی مصیبت ہے۔ اس لیے صَبْر سے کام لینا چاہئے۔

حدیثِ پاک میں مومن کی خوبی یہ بیان ہوئی ہے کہ اسے خوشی پہنچتی ہے تو اللہ کریم کا شکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے۔(مسلم،کتاب الزہدوالرقائق،باب المؤمن امرہ کلہ خیر،ص ۱۲۲۲، حدیث:۷۵۰۰)