تذکرۂ صالحات

حضرت اُمِّ منذِر سلمیٰ بنتِ قیس رضی اللہُ عنہا

* مولاناوسیم اکرم عطّاری مدنی

ماہنامہ مارچ2022ء

حضرت اُمِّ مُنذِر سلمیٰ بنتِ قیس  رضی اللہُ عنہا  کو رشتے میں حضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خالہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ [1] چونکہ عربوں کے ہاں باپ دادا کی خالہ کو بھی خالہ ہی کہا جاتا ہے اس لئے آپ حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے دادا کی طرف سے خالہ تھیں ۔ [2]

آپ کے والد کا نام قیس بن عَمرو جبکہ والدہ کا نام رُغَیبہ بنتِ زُرارہ ہے ، بعض مؤرّخین نے رُغَیبہ کو زا کے ساتھ یعنی زُغیبہ بنتِ زُرارہ ذکر کیا ہے۔ [3] آپ کی شادی حضرت قیس بن صَعصعہ  رضی اللہ عنہ  سے ہوئی۔ آپ كی کنیت آپ کے بیٹے منذر کی نسبت سے ہے[4] اور آپ اپنے نام کی بجائے کنیت سے زیادہ مشہور ہیں۔ [5]  آپ کے بھائی حضرت سُلیط بن قیس  رضی اللہ عنہ[6] جلیلُ القدر صحابی ہیں ، انہوں نے غزوۂ بدر ، اُحد اور خندق سمیت تمام غزوات میں حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ساتھ شرکت کی سعادت پائی۔ [7]جبکہ آپ کی دو بہنوں حضرت اُمِّ سُلیم اور حضرت عُمیرہ  رضی اللہ عنہما  نے آپ کے ساتھ ہی بیعتِ رضوان میں شرکت کی سعادت پائی۔ [8]

 بیعتِ رضوان صلح حدیبیہ کے موقع پر ہونے والی بیعت کو کہتے ہیں ، اس میں شرکت کرنے والوں کو قراٰنِ کریم نے رضائے الٰہی کا مُژدہ سنایا[9] اور پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی ، اِن شآءَ اللہ ان میں سے کوئی بھی دوزخ میں داخل نہ ہوگا۔ [10]

حضرت اُمِّ مُنذِر  رضی اللہُ عنہا  چونکہ ابتدا ہی میں اسلام لے آئی تھیں اس لئے آپ کو دونوں قبلوں یعنی بیتُ المقدس اور خانہ ٔ کعبہ کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ [11]

آپ کو علمِ دین سیکھنے سے مَحبّت تھی ، آپ کی علمِ دین سے محبت اور اس میں دلچسپی کا ایک واقعہ ملاحظہ کیجئے ، چنانچہ جب آپ نے دیگر انصاری عورتوں کے ساتھ حضور کی بیعت کی تو حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے دیگر باتوں کےعلاوہ اس بات پر بھی بیعت لی کہ اپنے شوہروں کو دھوکا نہ دیں گی۔ اس پر آپ  رضی اللہُ عنہا  نے ایک عورت کے ذریعے حضور سے پوچھا کہ اس سے کیا مراد ہے؟تو ارشاد ہوا : چوری چھپے(یعنی بغیر اجازت)شوہر کا مال کسی کو نہ دیں۔ [12]

یاد رہے!رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  خواتین سے جو بیعت لیتے تھے وہ انہیں چھوئے بغیر ہوتی تھی ، چنانچہ حضرت عائشہ  رضی اللہُ عنہا  فرماتی ہیں : اللہ پاک کی قسم! بیعت کرتے وقت آپ کے ہاتھ نے کسی عورت کے ہاتھ کومَس نہیں کیا ، آپ ان کوصرف اپنے کلام سے بیعت کرتے تھے ۔ [13]

حکیمُ الْاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : یعنی حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مَردوں سے بیعت لیتے تو مصافحہ فرماکر بیعت لیتے مگر عورتوں سے کبھی مصافحہ نہ فرماتے صرف کلام سے بیعت فرماتے کیونکہ غیرعورت کو ہاتھ لگانا حرام ہے خواہ پیر ہو یا عالم یا شیخ یا کوئی اور۔ [14]

اللہ ربُّ العزّت کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شعبہ فیضان صحابیات و صالحات ، المدینۃ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر) کراچی


[1] معجم کبیر ، 24 / 297 ، حدیث : 753

[2] اسدالغابۃ ، 7 / 165

[3] طبقات ابن سعد ، 3 / 388

[4] طبقات ابن سعد ، 8 / 310

[5] الاصابۃ ، 8 / 185

[6] طبقات ابن سعد ، 8 / 310

[7] طبقات ابن سعد ، 3 / 388

[8] طبقات کبیر ، 10 / 393

[9] پ26 ، الفتح : 18

[10] مسلم ، ص1041 ، حدیث : 6404

[11] معجم کبیر ، 24 / 296

[12] مسنداحمد ، 10 / 323 ، حدیث : 27203

[13] بخاری ، 3 / 350 ، حدیث : 4891

[14] مراٰۃ المناجیح ، 5 / 620


Share

Articles

Comments


Security Code