ام المؤمنین حضرت سیدتنا زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

ام المؤ منین حضرت سیدتنا زینب بنت خزیمہ   رضی اللہ تعالٰی عنہا  کا شمار تاریخ کی ان ہستیوں میں ہوتا ہے ،جو غریب پروری ، مسکین نوازی ، رحم دلی ، سخاوت اور فیاضی جیسے اوصاف میں نہایت بلند مقام پر فائز ہیں ۔سخی اور فیاض طبیعت نیز یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ مہربانی اور شفقت کے ساتھ پیش آنے اور انہیں کثرت کے کھانا کھلانے  کے باعث آپ کا لقب ہی ام المساکین (مسکینوں کی ماں) مشہور ہوگیا تھا ۔حضرت سیدنا علامہ احمد بن محمد قسطلانی   رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  فرماتے ہیں :” وَکَانَتْ تُدعٰی  فِی الْجَاھِلیَّۃِ اُمُّ الْمَسَاکِیْنَ لِاِطْعَامِھَا اِیَّا ھُم یعنی مساکین کو کھانا کھلانے کے باعث زمانۂ جاہلیت میں ہی آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہا کو امُ المساکین کے لقب سے پکاراجانے لگا تھا۔“(المواہب اللدنیہ ،ج1،ص411)

نام و نسب:آپ کا نام زینب ہے ۔ کہتے ہیں کہ زینب ایک خوب صورت اور خوشبو دار درخت کا نام ہے، اسی نسبت سے  عورتوں کا یہ  نام رکھا جاتا ہے۔(تہذیب اللغہ،ج13،ص230)

آپ کے والد خُزَیمہ بن حارث ہیں ۔ حضرت  مُضَر  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میں جا کر آپ کا نسب سرورِ عالَم،نورِ مجسم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نسب شریف سے مل جاتا ہے ۔ اس لیے آپ قریشی ہیں۔

نکاح :سرورِ کائینات ، شہنشاہِ موجودات   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حبالۂ عقد میں آنے سے پہلے اصح  قول کے مطابق آپ حضرت سیدنا عبد اللہ  بن جحش   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے ساتھ رشتہ ازواج میں منسلک تھیں ۔(المواہب اللدنیہ ،ج1،ص411)یہ رسول ِ کریم ، رؤوف رحیم  کے پھو پھی زاد بھائی ہیں اور قدیم الاسلام صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان میں شامل ہیں جو رسول اللہ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے دار ِارقم (مکۂ مکرمہ )میں تشریف لے جانے سے پہلے اسلام لے آئے تھے ۔ غزوۂ بد رو احد میں شرکت کی اور احدمیں ہی جامِ شہادت نوش فرمایا۔(اسد الغا بہ،ج3،ص195)

حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد آپ نے حضور اقدس  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی زوجیت کا  شرف پایا اور ام المؤ منین کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئیں ۔اس وقت حرمِ نبوی میں تین ازواج ِ مطہرات حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت سودہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہنَّ  پہلے سے موجود تھیں جبکہ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا  کا کم و بیش چھ برس پہلے انتقال ہو چکا تھا ۔روایت میں ہے کہ جب سرکارِ  رسالت مآب  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں نکاح کا پیغام دیا تو انہوں نے اپنا معاملہ آپ   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے سپرد کردیا ، پھر آپ   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے نکاح فرمالیا اور ساڑھے بارہ اوقیہ مہرِ نکاح مقرر فرمایا۔(طبقات ابن سعد ،ج8،ص91)

آپ ان صحابیات میں سے ہیں ، جنہوں نے اپنی جانیں رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے ہبہ کردی تھیں اور ان کے بارے میں  اللہتعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

(تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَ تُـْٔوِیْۤ اِلَیْكَ مَنْ تَشَآءُؕ-وَ مَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكَؕ-) (پ 22،الاحزاب:51)

تَرجَمۂ کنز الایمان: پیچھے ہٹاؤ اب میں سے جسے چاہو اور اپنے پاس جگہ دو جسے چاہو اور جسے تم نے کنارے کردیا تھا اسے تمہارا جی چاہے تو اس میں بھی تم پر کچھ گناہ   نہیں۔(اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

چنانچہ بخاری شریف میں ام المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں کہ  میں ان عورتوں پر غیرت کرتی تھی جو اپنی جانیں رسول اللہ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو بخش دیتی تھیں ۔ میں کہتی تھی : کیا عورت اپنی جان بخشتی ہے ؟ پھر جب  اللہ عَزَّوَجَلَّ  نے یہ آیت اتاری تو میں نے عرض کیا کہ میں آپ کے رب عَزَّ وَجَلَّ کو نہیں دیکھتی مگر وہ آپ کی خواہش پوری کرنے میں جلدی فرماتا ہے ۔(بخاری ،ج3،ص303،حدیث : 4788)

سفرِِ آخرت: پیارے آقا   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زوجیت میں آنے کے فقط آٹھ ماہ  بعد ہی ربیع الآخر چار ہجری میں آپ نے داعیٔ اجل کو لبیک  کہا اور اپنے آخرت کے سفر کا آغاز فرمایا ۔اس وقت آپ کی عمر مبارک 30برس تھی ۔ (زرقانی علی المواھب،ج4،ص418)

سرورِ کا ئینات صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور تدفین کی ۔ (طبقات ابن سعد ،ج8،ص92)

واضح رہے کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہنَّ میں سے صرف دو ازواج ایسی ہیں  ،جنہوں نے پیارے آقا   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی حیات ِ ظاہری میں انتقال فرمایا:

(1)۔۔۔ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبر یٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا :انہوں  نے اعلانِ نبوت کے دسویں سال ماہِ رمضان المبارک  میں انتقال فرمایا۔(مدارج النبوت ،ج2،ص456)ان کی تدفین مکہ مکرمہ میں واقع حجون کے مقام پر ہوئی جو اہل ِ مکہ کا قبرستان ہے ۔ اب اسے جَنَّۃُ الْمَعْلیٰ کہا جاتا ہے۔

(2)۔۔۔ام المؤ منین حضرت زینب بنت ِ خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا  ان کا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا اور جَنَّۃُ الْبَقِیع شریف میں تدفین ہوئی ۔(طبقات ابنِ سعد،ج8،ص92)ان سے پہلے جب حضرت خدیجہ  الکبریٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا  کا انتقال ہوا تھا، اس وقت نماز ِ جنازہ کا حکم نہیں آیا تھا ، اس لئے ان پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی گئی ۔(فتاویٰ رضویہ ،ج9،ص369 )لہٰذا ازواج ِ مطہرات   رضی اللہ تعالٰی عنہنَّ میں سے صرف آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضور اقدس نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی ۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اگرچہ ام المؤمنین حضرت سیدتنا زینب بنت ِ خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نےبہت کم عرصہ سرکارِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی صحبتِ بابرکت میں گزارا ، جس کی وجہ سے آپ کے حالاتِ  زندگی بھی بہت کم منقول ہیں، لیکن آپ کا لقب ہی آپ کی پاکیزہ حیات کی عکاسی کرتا ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا دل غریبوں اور م سکینوں کی محبت سے لبریز تھا اور ان کی مدد و اعانت آپ   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا محبوب عمل تھا ۔ آپ کی سیرت کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے ہمیں بھی فقر ا اور مساکین کے ساتھ مہربانی و احسان کے ساتھ پیش آنا چاہئے اور صدقہ و خیرات میں خوب کوشش کرنی چاہئے ۔اللہ رب العزت ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share

Articles

Comments


Security Code