حضرت سیّدتُنا اُمِّ شریک اسدیہ رضی اللہ عنہا

اسلام کی راہ میں آنے والی دشواریوں پر صبر کرنے والی اور ثابت قدم رہنے والی خواتین میں سے ایک خوش بخت   عورت ، صحابیۂ رسول حضرت سیّدتُنا اُمِّ شریک     رضی اللہ عنہا    بھی ہیں۔ آپ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنی عامر سے ہے۔ آپ ابوعَکَر دَوسی   رضی اللہ عنہ   کے نکاح میں تھیں۔ آپ     رضی اللہ عنہا   دینِ اسلام کی تبلیغ و اِشاعت اور صبر و اِستقامت کے حوالے سے بہت مشہور ہیں۔

آپ   رضی اللہ عنہا  کی ثابت قدمی : حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عباس     رضی اللہ عنہما   فرماتے ہیں کہ حضرتِ اُمِّ شریک مکّہ میں تھیں ، ان کے دل میں اسلام کی عَظَمت پیدا ہوگئی اور اسلام لے آئیں۔ قبولِ اسلام کے بعد خُفیہ طور پر قریش کی عورتوں سے ملتیں اور انہیں اسلام کی دعوت دے کر قبولِ اسلام کی ترغیب دلاتیں حتّٰی کہ اہلِ مکّہ پر ظاہر ہوگیا کہ یہ ایمان لاچکی ہیں۔ چنانچہ اہلِ مکّہ نے آپ کو پکڑ کر کہا : “ اگر ہمیں تمہارے قبیلہ کا لحاظ نہ ہوتا تو ہم تمہیں سخت سزا دیتے لیکن اب ہم تمہیں مسلمانوں کی طرف لوٹا کر ہی دَم لیں گے۔ “ آپ خود بیان کرتی ہیں کہ اہلِ مکّہ نے مجھے بغیر کَجاوے کے اُونٹ پر سُوار کیا کہ میرے نیچے کوئی کپڑا اور زِین وغیرہ بھی نہ تھی۔ تین دن تک مجھے اسی حالت میں چھوڑے رکھا نہ کچھ کھلاتے نہ پلاتے۔ مجھ پر تین دن ایسے گزرے کہ میں نے زمین پر چلنے والی کسی چیز کی آواز نہ سنی۔ اہلِ مکّہ جب بھی کسی مقام پر پڑاؤ ڈالتے تو مجھے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیتے اور خود سائے میں جاکر بیٹھ جاتے اور مجھے کھانے پینے کو بھی کچھ نہ دیتے۔ میں اسی حالت میں رہتی حتّٰی کہ وہ وہاں سے کُوچ کرجاتے۔ اسی دوران انہوں نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا اور مجھے دھوپ میں باندھ کر خود سائے میں چلے گئے۔ اچانک میں نے اپنے سینہ پر کسی چیز کی ٹھنڈک محسوس کی ، دیکھا تو وہ پانی کا ایک ڈول تھا۔ میں نے اس میں سے تھوڑا سا پانی پیا پھر اسے ہٹا لیا گیا اور وہ بلند ہوگیا ، کچھ دیر بعد ڈول پھر آیا میں نے اس میں سے پیا اسے پھر اٹھا لیا گیا پھر اسی طرح آیا میں نے اس میں سے تھوڑا سا پانی پیا اسے پھر اٹھا لیا گیا ، کئی بار ایسا ہوا ، پھر وہ ڈول میرے حوالے کر دیا گیا ، میں نے سیر ہو کر پیا اور بقیہ پانی اپنے جسم اور کپڑوں پر اُنڈیل لیا۔ جب وہ لوگ بیدار ہوئے ، مجھ پرپانی کا اَثْر محسوس کیا اور مجھے اچھی حالت میں دیکھا تو کہا : “ کیا تم نے کُھل کر ہمارے مَشکیزوں سے پانی پیا ہے؟ “  میں نے کہا : “ نہیں! بخدا! میں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس اس طرح معاملہ پیش آیا ہے۔ “ انہوں نے کہا : “ اگر تم سچی ہو تو پھر تمہارا دین ہمارے دین سے بہتر ہے۔ “  جب انہوں نے اپنے مَشکیزوں کو دیکھا تو انہیں ایسے ہی پایا جیسے انہوں نے چھوڑے تھے۔ پھر اسی وقت وہ ایمان لے آئے۔                    (الاصابۃ ، 8 / 417 ، حلیۃ الاولیاء ، 2 / 96)

اللہ پاک حضرت اُمِّ شریک     رضی اللہ عنہا   کے صدقے ہمیں بھی صبر و اِستقامت کی دولت عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی

 


Share

Articles

Comments


Security Code