تذکرۂ صالحات

حضرت سُمیّہ بنت خُبّاط رضی اللہُ عنہا

* مولانا بلال سعید عطاری مدنی

ماہنامہ ستمبر 2021

حضرت سُمیّہ بنتِ خُبّاط  رضی اللہُ عنہا کا شمار ان عظیمُ الشان ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کر کے کفر و شرک کے اندھیرے سے ایسی دوری اختیار کی کہ پھر کوئی قوت اور طاقت آپ کو واپس نہ کھینچ سکی۔

تعارف : آپ ابو حذیفہ بن مُغیرہ مخزومی کی کنیز تھیں ، اس نے خود آپ کا نکاح اپنے حلیف حضرت یاسر بن عامر  رضی اللہُ عنہ سے کیا اور جب ان کے ہاں حضرت عمّار  رضی اللہُ عنہ  کی ولادت ہوئی تو آپ کو آزاد کر دیا ، حضرت عمّار اور ان کے والدین کا شمار بھی جلد اسلام قبول کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ [1]

اسلام کی خاطر تکالیف پر صبر : حضرت سمیّہ بنتِ خبّاط  رضی اللہُ عنہا  اور آپ کے شوہر چونکہ ان سات لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سب سے پہلے اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا تو کفّارِ مکہ نے آپ اور آپ کے گھرانے پر ظلم و ستم کی حد کر دی۔ مثلاً وہ ان سب کو لوہے کی زِرَہ پہنا کر تپتی ریت پر دھوپ میں کھڑا کر دیتے ، لیکن ایسی صورتِ حال میں بھی آپ نے صبر و استقلال سے کام لیا ، ناشکری کا کوئی بھی کلمہ ادا نہ کیا ، ایک مرتبہ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس طرف سے گزر رہے تھے تو انہیں تپتے صحرا میں ایذائیں پاتا دیکھ کر ارشاد فرمایا : صَبْرًا اٰلَ یَاسِرٍ مَوْعِدُکُمُ الجَنَّۃ یعنی اے آلِ یاسر! صبر کا دامن تھامے رہنا ، تمہارے لئے جنّت کا وعدہ ہے۔ [2]

اسلام کی شہیدۂ اول : آپ وہ پہلی خاتون ہیں جن کا خون راہِ خُدا میں سب سے پہلی بار بہایا گیا ، وہ اس طرح کہ ابو جہل نے آپ کو نیزا مارا جس سے آپ شہید ہوگئیں۔ [3]

آل یاسر کے لئے خوش خبری : جب حضرت سمیہ  رضی اللہُ عنہا  کو شہید کیا گیا تو آپ کے بیٹے حضرت عمّار بن یاسر  رضی اللہُ عنہما سخت صدمے کی حالت میں آقائے کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : یارسولَ اللہ  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! مشرکین نے ظلم کی انتہا کردی ، حضور نے انہیں صبر کی تلقین کی اور ان کیلئےان الفاظ میں دعا فرمائی : اَللّٰہُمَّ لَا تُعَذِّبْ اَحَدًا مِنْ اٰلِ یَاسِرٍ بِالنَّارِ یعنی اے اللہ! آلِ یاسر کو دوزخ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ [4]جب جنگِ بدر میں ابو جہل مارا گیا تو حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عمار بن یاسر  رضی اللہُ عنہما  کو بلا کر مبارک باد دی اور ارشاد فرمایا : قَدْ قَتَلَ اللہُ قَاتِلَ اُمِّکَ یعنی اللہ پاک نے تیری والدہ کے قاتل سے بدلہ لے لیا۔ [5]

ذرا غور کیجئے کہ جاہ و جلال والے عظیم سردارانِ قریش کے سامنے ایک بوڑھی اور نادار غلامانہ زندگی بسر کرنے والی حضرت سمیّہ بنتِ خبّاط  رضی اللہُ عنہا  کیسے خم ٹھونک کر کھڑی رہیں اور رؤسائے قریش کے ظلم و ستم سے بھی نہ ڈگمگائیں ، بلکہ راہِ خُدا میں جان کا نذرانہ تک پیش کردیا ، اس سے ان اسلامی بہنوں کو درس حاصل کرنا چاہئے جو طرح طرح کی سہولتیں اور آسانیاں ہونے کے باوجود دین سے دور ہیں اور اللہ کریم کی نافرمانیوں میں لگی ہوئی ہیں ، ان میں نہ فرائض و واجبات کا علم سیکھنے کا جذبہ ہے نہ سنّتوں پر عمل کا شوق۔

اللہ کریم ہمارے حال پر رحم فرمائے اور صحابیات کے نقشِ قدم پر چلنے اور دین پر عمل پیرا ہونے کی سعادت عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ فیضانِ صحابیات و صالحات ، المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی



[1] الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ، 8 / 190

[2] اسد الغابہ ، 7 / 167 ملخصاً

[3] الاستیعاب ، 4 / 419 ملخصاً

[4] الاستیعاب ، 4 / 419ملخصاً

[5] طبقات ابن سعد ، 8 / 208


Share

Articles

Comments


Security Code