ام المؤمنین حضرت سیّدتنا زینب بنت جحش رضی اللہ تعالٰی عنہا

اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا زینب بنتِ جَحْش رضی اللہ تعالٰی عنہا کی ذات بے شمار خوبیوں اور فضائل وکمالات کی جامع ہے۔ آپ حُضُورسیِّدِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پھوپھی اُمَیْمَہ بنتِ عبد المطلب کی بیٹی ہیں۔(اسد الغابہ،ج7،ص126) نام و لقب پہلے آپ کا نام بَرَّہ تھا رسولِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تبدیل فرما کر زینب رکھا۔(بخاری،ج4،ص153، حدیث:6192) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا  کی کنیت ” اُمِّ حَکَم“ ہے اور پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو” اَوَّاہَۃ“ کے لقب سے نوازا ہے، جس کے معنیٰ ہے: خشوع کرنے والی اور خدا کے حضور گِڑگِڑانے والی۔(اسد الغابہ،ج7،ص128) قبولِ اسلام اور ہجرت اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا زینب بنتِ جَحْشرضی اللہ تعالٰی عنہا قدیمُ الاسلام صحابیاترضی اللہ تعالٰی عنہنَّ میں سے ہیں۔ اِسْلَام قبول کرنے کے بعد آپ نے حبشہ کی طرف دونوں ہجرتوں میں شرکت فرمائی اور پھر سرکارِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہجرت فرما کر مدینۂ منوّرہ تشریف لانے کے بعد آپ نے بھی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حبشہ سے مدینہ شریف کی طرف ہجرت کرلی۔(اسدالغابہ،ج3،ص195)اَوصاف و کمالات خوفِ خُدا، تقویٰ وپرہیزگاری، عِبادت وریاضت، دنیا سے بے رغبتی اور جُود وسخاوت وغیرہ آپ کے نمایاں اوصاف ہیں۔ حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہرضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: میں نے ان سے بڑھ کر دین دار، اللہ عَزَّوَجَلَّ  سے ڈرنے والی، حق بات کہنے والی، صلۂ رحمی کرنے والی اور صدقہ وخیرات کرنے والی کوئی عورت نہیں دیکھی۔(مسلم،ص950،حدیث:2442)شوقِ سخاوت (حِکایت) رِوایت ہے کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا دَسْت کاری (یعنی ہاتھ سے کام کاج) کرنے والی خاتون تھیں، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کھالیں دَباغَت كر کے (یعنی مخصوص طریقے سے سُکھا کر) انہیں سِلائی کرتیں اور پھر اللہ تعالٰی کی راہ میں صدقہ کر دیتیں۔ (مستدرک،ج5،ص32، حدیث:6850) وصالِ باکمال حضرت سیّدتنا عائشہ صدّیقہرضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ بعض ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہ تعالٰی عنہنَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی: ہم میں سے کون  سب سے  پہلےآپ سے ملے گی؟ فرمایا: جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں (یعنی جو زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والی ہے)۔(بخاری،ج1،ص479،حدیث: 1420) حضرت سیّدتنا زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کثرت سے صدقہ کرنے والی خاتون تھیں اس لئےپیارے آقاصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد ازواجِ مُطَہَّراترضی اللہ تعالٰی عنہنَّ میں سے سب سے پہلے آپ کا ہی وصال ہوا۔(بخاری،ج1،ص479، حدیث: 1420 ماخوذاً) آپ کا سنِ وصال 20ھ ہے۔ یہ امیرُالمؤمنین حضرت سیِّدنا عمر فاروقِ اعظمرضی اللہ تعالٰی عنہ کا دَورِ خلافت تھا۔ (طبقات الکبریٰ،ج 8،ص80) وصیت وصال شریف سے پہلے بھی آپ نے صدقہ کرنے کی وصیت کی،فرمایا: میں نے اپنا کفن تیار کر رکھا ہے، ہو سکتا ہے کہ (حضرت) عمر (رضی اللہ تعالٰی عنہ) بھی کفن بھیجیں اگر وہ بھیجیں تو ان میں سے کسی ایک کو صدقہ کر دینا اور مجھے قبر میں اُتارنے کے بعد اگر میرا پٹکا بھی صدقہ کر سکو تو کر دینا۔(طبقات الکبری،ج8،ص80) مالِ وراثت آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے وراثت میں کوئی مال نہیں چھوڑا صرف ایک گھر تھا جسے بعد میں وُرَثَا نے مسجدِ نبوی شریف کی توسیع کے وقت وَلِید بن عبد الملک کے ہاتھ فروخت کر دیا۔(طبقات الکبریٰ،ج8،ص87) حضرت عائشہ کے تعریفی کلمات آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا  کے انتقال پر اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے یہ تعریفی کلمات کہے:ایک قابلِ تعریف اور فَقِیْدُ المثال خاتون چل بَسیں جو یتیموں اور بیواؤں کی پناہ گاہ تھیں اور فرمایا: زینب نیک خاتون تھیں۔(طبقات الکبریٰ،ج8،ص91 ملتقطًا)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭شعبہ فیضان صحابیات،المدینۃ العلمیہ،سردارآباد(فیصل آباد)


Share

ام المؤمنین حضرت سیّدتنا زینب بنت جحش رضی اللہ تعالٰی عنہا

بِلاشُبہ اسلام نے عورت کو جہاں اور بہت سی عظمتیں عطا کیں وہیں اسکی”عزّت و ناموس “کے تحفظ کا بھی زبردست مگر فطرت کے عین مطابق انتظام کیا۔ آبرو کا تحفظ جس طرح قیمتی اثاثوں کی سرِ عام نمائش کرنے کے بجائے انہیں تجوری میں بند کرکے نظروں اور مال کے چوروں سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ عورت کی عزت کو لُٹیروں سے بچانے اور اس تک پہنچنے کے راستے بند کرنے کیلئے بھی کچھ اسی طرح کی تدابیر لازمی قرار دی گئیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ  نے ارشاد فرمایا (وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى )(پ22،الاحزاب:33) تَرْجَمَۂ کنز الایمان:اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔مزيد فرمایا (یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-) 22،الاحزاب:59) (تَرْجَمَۂ کنز الایمان:اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) نیز پسِ پردہ رہتے ہوئے ضرورتاً غیر مرد سے گفتگو کرنے کی صورت میں لہجے میں اَجنبیت و بیگانگی رکھنے اور آواز میں نَزاکت و نرمی اور لچک سے بچنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ (22، الاحزاب،32) تَرْجَمَۂ کنز الایمان:تو بات میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کا روگی کچھ لالچ کرے۔ (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) خبردار! ہوشیار!آج اسلام دُشمن عناصر بنتِ حوا کی عِصمت  کی دولت چُرانے کے لئے جھوٹی ہمدردی ظاہر کرکے بے حیائی کو فیشن، بے پردگی کو مساوات ،عورت کی عزّت کے تحفظ کے بارے میں جو احکامِ شریعت بیان ہوئےاُنہیں ”قید“، پردے سے مُتَعَلّق  اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کو آزادی اور عورت کو ہَوَس بھری نگاہوں کی زَد پر لانے کو ترقی قرار دےکر عورتوں کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔

یادرکھئے!ہوس کے ان پُجاریوں کی مثال اُن بھوکے بھیڑیوں جیسی ہےجنہوں نے بکریوں کے حق میں جلوس نکالا کہ بکریوں کو آزادی دو، بکریوں کے حقوق مارے جارہے ہیں، اُنہیں گھروں میں قید کرکے  رکھا گیا ہے۔یہ سُن کر بہت سی جوان اور جذباتی بکریاں بھیڑیوں کو اپنا ہمدرد سمجھ بیٹھیں اور ان کی بولی بولنے لگیں،ایک عقلمند بوڑھی بکری نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ بھیڑئیے ہمارے دُشمن ہیں ان کی باتوں میں مت آؤ! چار دیواری میں تمہیں جو تحفظ حاصل ہے آزادی ملتے ہی اسے شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے مگر نوجوان بکریوں نے اس کی ایک نہ سُنی اور اپنے خیرخواہ کو بد خواہ اور بدخواہوں کو خیر خواہ سمجھ کر آزادی آزادی کے نعرے لگانے شروع کردئیے،مجبوراً مالک نے اُنہیں آزاد کردیا۔ بکریاں بہت خوش ہوئیں اور اُچھلتی کودتی چار دیواری سے باہر بھاگیں مگر یہ کیا! ابھی تو آزادی کی فضا میں کھل کر سانس بھی نہیں لیا تھا کہ بھیڑیوں نے ہَلّہ بول کر اُنہیں چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ درسِ حکایت مسلمان خواتین کو چاہئے کہ حقیقت کی عَکّاسی کرتی ہوئی اس فرضی حکایت کو نظر انداز نہ کریں اور اسلام نے اُنہیں عزت و آبرو کی حفاظت کیلئے چادر کی صورت میں جو خیمہ اور چار دیواری کی صورت میں جو قلعہ عطا فرمایا ہے خُدارا! اُسے غنیمت جانیں اور اس قلعہ و خیمہ سے باہر نکلنے اور اپنے ساتھ شانہ بہ شانہ چلنے کی دعوت دینے والے بھیڑیوں کو بکری بن کر اپنا خیر خواہ ہرگز نہ سمجھیں ،آج عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والے در حقیقت عورتوں تک پہنچنے کی آزادی چاہ رہے ہیں ،انہیں عورتوں کے حقوق کی نہیں بلکہ اپنی غلیظ پیاس بُجھانے کی فکر ہے۔ اے کاش !کوئی سمجھے!!!

چادر و چار دیواری کی ضرورت و اہمیت جاننے کیلئے امیر اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب”پردے کے بارے میں سُوال جواب“ اور مکتبۃ المدینہ کی کتاب”فیضانِ سورۂ نور“ ضرور پڑھئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…شعبہ رسائل دعوتِ اسلامی،المدینۃالمدینہ با ب المدینہ کراچی


Share

ام المؤمنین حضرت سیّدتنا زینب بنت جحش رضی اللہ تعالٰی عنہا

آرٹیفشل(Artificial) پَلکیں لگانا کیسا؟

سوال:کیا فرماتے ہیں عُلمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا عورت  آرٹیفشل پلکیں لگاسکتی ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

آرٹیفشل(یعنی مَصنوعی) پلکیں جبکہ اِنسان اور خِنْزیر (Pig) کے بالوں سے بنی ہوئی نہ ہوں، زِینَت کے طور پر عورتوں کا لگانا جائز ہے۔لیکن وُضُو، غُسل کرنے کے لئے ان پلکوں کا اُتارنا ضروری ہوگا کیونکہ آرٹیفشل پلکیں گُوندوغیرہ سے لگانے کے بعد اَصلی پلکوں کے ساتھ چِپکادی جاتی ہیں، لہٰذاانہیں اُتارے بغیر اصلی  پلکوں کا دھونا ممکن نہیں جبکہ وُضو،غُسل میں اَصلی پلکوں کے ہر بال کا دھونا فرض ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نماز میں عورت کے بال نظر آرہے ہوں تو؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نماز میں عورت کے بال نظر آرہے ہوں تو کیا عورت کی نماز ہوجائے گی؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عورت کے بال اَعضائے سَتْر میں سے ہیں، عورت پر ان کا پردہ فرض ہے اور اَعضائے سَتْر میں سے کوئی عُضو حالتِ نماز میں ظاہر ہو تو نماز درست ہونے یا نہ ہونے میں اس کی چوتھائی کا اِعتبار ہے۔لہٰذا ٭ چوتھائی سے کم بال کُھلے ہوئے ہوں تو نماز ہوجائے گی اور٭اگرچوتھائی یا اس سے زیادہ مِقدارمیں بال کُھلے ہوئے ہیں یا چادر، دوپٹہ باریک ہونے کی وجہ سے چوتھائی کی مِقدار بالوں کی رَنگت ظاہر ہورہی ہے  تو اس بِنا پر نماز نہ ہونے کی دو صورتیں ہیں:(1)اگرعورت نے نماز ہی اس حالت میں شروع کی کہ اِس قَدر بال کھلے ہوئے تھے یا ان کی رَنگت ظاہر ہورہی تھی تو نماز شروع ہی نہیں ہوئی(2) اگر یہ حالت نماز شروع ہونے کے بعد پیدا ہوئی اورعورت نےاِسی حالت میں کوئی  رُکْن ادا کرلیا یا ایک رُکْن یعنی تین مرتبہ سُبحٰن اللہکہنے کی مِقدار(دیر) گُزرگئی  تو نماز فاسد ہو گئی اور اگر ایک رُکْن(یعنی تین مرتبہسُبحٰن اللہ کہنے )کی مُدت گزرنے سے پہلے ہی بال چھپالئے تو نماز ہوگئی ۔

یاد رہےکہ یہ تفصیل چوتھائی کی مِقدار بِلا قَصد(بغیر اِرادہ کے) کُھل جانے کی صورت میں ہے،اگرکوئی عورت قَصداً (جان بوجھ کر) حالتِ نماز میں چوتھائی کی مِقدار بال کُھول لے  تو فورا ًنماز فاسد ہوجائے گی اگرچہ ایک رُکْن کی مِقدار تاخیر نہ کی ہو۔

 تنبیہ:عورت کے اَعضائے سَتْر میں سَر اور سَر سے جوبال لٹک رہے ہوتے ہیں یہ دو الگ الگ عُضو کی حَیثِیّت رکھتے ہیں۔  سَر کی تعریف یہ ہے کہ پیشانی سے اوپر جہاں سے عادۃً بال اُگنا شروع ہوتے ہیں وہاں سے لیکر گردن کی شُروع تک طُول میں اور ایک کان سے دوسرے کان تک عَرض میں(یعنی عادۃً جہاں بال اُگتے ہیں)یہ سَر ہے۔لِہٰذا اگر نظر آنے والے بال سَر کی حد میں ہوں مثلاً پیشانی کی جانِب سے بال نظر آرہے ہوں تو اس میں سَر کی چوتھائی کا لِحاظ ہوگا اور اگرسَر سے لٹکنے والے بالوں میں سے کچھ ظاہر ہوں تو صرف ان  لٹکنے والےبالوں کی چوتھائی دیکھی جائے گی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭ دار الافتاء اہلِ سنّت فیضان مدینہ ، باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code