حضرت سیدتنا امّ ورقہ رضی اللہ عنہا

اوائلِ اسلام میں جن خوش نصیب لوگوں نے اسلام  قبول کرنے اور سابِقِین و اَوَّلِین میں داخل ہونے  کا اِعْزاز  پایا   ان جلیلُ القدر ہستیوں میں ایک  نام  حضرت سیّدَتُنا اُمِّ وَرَقَہ بنتِ عبد اللہ رضی اللہ عنہما کا بھی ہے۔ نام و نسب: آپ کا اسمِ گرامی لیلیٰ،([1])  کنیت اُمِّ وَرَقہ اور القابات ”شَہیدَہ“ و ”قارِیہ“  ہیں۔ آپ کو  آپ کے جدِّ اعلیٰ نَوْفَل کی نسبت سے وَرَقَہ بنتِ نَوْفَل بھی کہا جاتا ہے۔([2]) آپ حضرت سیّدُنا عبداللہ بن حارِث بن عُوَیْمَر رضی اللہ عنہ  کی شہزادی اور امیرُ المؤمنین حضرت سَیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہ عنہ  کی خالہ ہیں۔([3]) آپ اپنی  کنیت ”اُمِّ وَرَقَہ“ ہی سے زیادہ معروف ہیں۔([4]) شہادت کی تمنا: پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب غزوۂ بَدر میں تشریف لے جانے لگے تو آپ رضی اللّٰہ عنہا نے عرض کی: مجھے بھی جانے کی اجازت عطا فرما دیجئے، میں زخمیوں کا علاج اور مریضوں کی تیمار داری کروں گی شاید اللہ پاک مجھے شہادت عطا فرما دے۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اپنے گھر میں ٹھہری رہو، اللہ پاک تمہیں شہادت (کی موت) عطا فرمائے گا۔“ اُس وقت سے اُنہیں ”شہیدہ“ پُکارا  جانے لگا۔([5]) فضائل و مناقب:٭آپ رضی اللہ عنہا  کا شمار ان صحابیات میں ہوتا تھا جنہوں نے قراٰنِ پاک حفظ فرمالیا تھا ٭آپ کو حُضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے احادیث روایت کرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔([6]) ٭آپ رضی اللّٰہ عنہا کو ایک خصوصیت اس وجہ سے بھی حاصل ہے کہ پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ  رضی اللّٰہ عنہا  کے ہاں تشریف لے جاتے اور آپ کو شہیدہ کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ چنانچہ حدیثِ پاک ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب آپ  رضی اللہ عنہا کے ہاں جانے کا ارادہ فرماتے تو (صحابۂ کرام  علیہمُ الرِّضوان  سے) فرماتے: چلو! ہم شہیدہ سے ملنے چلتے ہیں۔([7]) ذوقِ تلاوت اور شہادت:آپ رضی اللہ عنہا قراٰنِ پاک کی بہترین قاریہ تھیں۔آپ رات کے وقت گھر میں تلاوت کیا کرتی تھیں اور حضرت سیّدنا عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہ عنہ آپ کی تلاوتِ قراٰن سماعت فرماتے۔ ایک رات خلافِ مَعمول جب آپ رضی اللہ عنہا کی آواز سنائی نہ دی تو آپ  رضی اللہ عنہ کو تشویش ہوئی چنانچہ علّامہ ابنِ حجرعَسْقَلانی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: امیرُ المؤمنین حضرتِ سیِّدنا عُمَر فاروق  رضی اللہ عنہ  نے صبح ہوتے ہی ارشاد فرمایا آج رات میں نے اپنی خالہ حضرت اُمِّ وَرَقہ  رضی اللہ عنہا کی تلاوت کی آواز نہیں سُنی۔ تفتیشِ حال کے لئے جب ان کے گھر تشریف لے گئے ، معلوم  ہوا کہ آپ کو گزشتہ رات شہید کردیا گیا ہے تو سیّدنا فاروقِ اعظم  رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صَدَقَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ یعنی اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا( کہ آپ کو شہادت کا رُتبہ ملے  گا)۔ ([8]) ملزمان کو سزائے موت: حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ  نےفورا ً ملزمان کو گِرفتار کرنے کا حکم فرمایا اورپھر انہیں سزائےموت  سنادی۔([9])

اللہ  پاک کی حضرت سیّدتنا اُمِّ وَرَقہ رضی اللہ  عنہا  پر رحمت ہو اور ان کے صدقے  ہماری  بے حساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

_______________________

٭…بنت سعید عطاریہ مدنیہ   



([1])اطراف المسند المعتلی،ج9،ص472

([2])الاصابہ،ج8،ص489

([3])حلیۃ الاولیاء،ج 2،ص75، الاصابہ،ج 8،ص489

([4])الاستیعاب،ج 4،ص1965

([5])ابوداؤد،ج1،ص243،حدیث:591

([6])طبقاتِ ابنِ سعد،ج 8،ص335، تقریب التھذیب، ص1386

([7])سننِ کبریٰ للبیھقی،ج 3،ص186، حدیث:5353

([8])الاصابۃ،ج 8،ص489ماخوذاً

([9])سننِ کبریٰ للبیھقی،ج 3،ص186، حدیث:5353


Share

Articles

Comments


Security Code