حضرت فاطمہ بنتِ اسد رضی اللہ عنہا

پیارے آقا، مدینے والے مصطفےٰ صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی چچی جان اور حضرت سیّدُنا  علی المرتضی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتُنا  فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا تاریخ اسلام  کی ایک اہم ہستی ہیں ۔ آپ رضی اللہ  عنہا کے والد کا نام اسد بن ہاشم بن عبد مناف اور  والدہ کا نام فاطمہ بنت ھَرِم بن رواحہ ہے ،آپ کا تعلق قبیلہ بنی ہاشم سے ہے ۔

ہجرت و اسلام:آپ بھی اُن خوش نصیب شخصیات میں شامل ہیں جو ایمان کی دولت سے سَرفراز ہوئیں اور مدینہ شریف ہجرت کی۔

نکاح و اولاد: آپ کا نکاح ابوطالب سےہوا ۔آپ کی اولاد کی فہرست میں درج ذیل نام شامل ہیں:حضرت علی، حضرت جعفر، حضرت عقیل، طالب، حضرت اُمِّ ہانی، حضرت جُمانہ، رِیطہ۔

تجہیز و تکفین اور رحمتِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عنایتیں: جب مدینۂ منوّرہ میں آپ رضی اللہ عنھا کا انتقال ہوا تو حُضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے اور ان کے سِرہانے بیٹھ کرارشاد فرمایا:”اللہ پاک آپ پر رحم فرمائے! میری والدۂ محترمہ کے بعد آپ میری ماں تھیں، خود بُھوکی رہتیں مجھے کھلاتیں، خود پُرانے کپڑوں میں گزارہ کرتیں مجھے نئے کپڑے پہناتیں، اچھے کھانے خود نہ کھاتیں بلکہ مجھے کھلاتیں، صرف اس نیّت سے کہ اللہ پاک کی رضا اور آخرت کی کامیابی حاصل ہو۔“ پھر غسلِ میّت ہوجانے کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے کفن پہنانے سے پہلے اپنی مبارک قمیص انہیں پہنانے کے لئے دی۔ جب لَحْدبنا نے کاوقت آیاتو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود لحدبنائی اور اس میں لیٹ کر اس طرح دُعا کی: ”تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو جِلاتا (یعنی زندہ کرتا) اور مارتاہے اور خود زندہ ہے کہ کبھی نہ مرے گا، (اے اللہ!) میری ماں فاطمہ بنتِ اسد کو بخش دے، انہیں اِن کی حُجّت سکھا اور اپنے نبی اور مجھ سے پہلے انبیا کے صدقے (وسیلے) ان کی قبر کو وسیع فرما، تُو سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔“ پھر چار تکبیروں کےساتھ ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے انہیں قبر میں اُتارا۔ (معجمِ کبیر،ج 24،ص351،حدیث:871) جب قبر پر مٹی برابر کر دی گئی  تو کسی نے عرض کی:یارسولَ اللہ ! آج ہم نے آپ کو وہ عمل کرتے دیکھا جو آپ نے پہلے کسی کے ساتھ نہ کیا۔ فرمایا:انہیں میں نے اپنا کُرتا اِس لئے پہنایا تاکہ یہ جنّت کے کپڑے پہنیں اور ان کی قبر میں اس لئے لیٹا تاکہ قبر دَبانے میں ان کے لئے تخفیف کرے اور یہ ابوطالب کے بعد خلقِ خدا میں سب سے زیادہ میرے ساتھ نیک سلوک کرنے والی تھیں۔(معجمِ اوسط،ج5،ص165،حدیث:6935)

مزار شریف: آپ کا مزار جنّتُ البقیع میں امیرُ المؤمنین حضرت سیّدناعثمان بن عفّان رضی اللہ عنہ کے مزار شریف کے پاس ہے۔(الاعلام للزرکلی،ج 5،ص130) اللہ کریم کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب بخشش ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…بنت محمد یوسف عطاریہ مدنیہ


Share

Articles

Comments


Security Code