عمرِثانی

نرم و ملائم لباس، عمدہ سواری، اعلیٰ خوشبوئیں، چاروں طرف اِشارے کے منتظر خدّام، شاہانہ طرزِ زندگی، مال و دولت کی فراوانی، ہر طرح کا عیش و آرام یہ سب کچھ چھوڑنا اتنا آسان نہیں،مگر ایک شخص نے خوفِ خدا اور آخرت سنوارنے کے لئے دنیا کی ان لذّتوں کو ٹھوکر ماردی، حکمرانِ وقت ہونے کے باوجود فقیرانہ طرزِ زندگی اختیار کر کے رہتی دنیا تک ایک مثال قائم کر دی۔ میری مُراد تاریخِ اسلام کے قابلِ فخر اور لائقِ اتباع خلیفہ وحکمران حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ آپ خلیفہ کا منصب سنبھالنے سے پہلے شاہانہ زندگی بسر کیا کرتے تھے مگر ظلم وجبر اور حق تلفی اس میں بھی نہ تھی، جب خلیفہ بنے تو زندگی کا رنگ ہی بدل گیا، آپ کی خلافت کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:شاہی سواری اور خیمے سے انکار سابق خلیفہ کی تدفین سے واپسی پر آپ کو عمدہ نسل کے خچر اور تُرکی گھوڑے پیش کئے گئے پوچھا: یہ کیا ہے؟ عرض کی گئی: شاہی سواریاں ہیں، ان پر خلیفہ ہی سوار ہوتا ہے، آپ قبول فرمائیے۔ آپ نے فرمایا: میرے لئے میرا خچر ہی کافی ہے ،انہیں مسلمانوں کے بیتُ المال میں جمع کروادو۔ یونہی آپ کی نشست کےلئےشاہی خیمے اور شامیانے لگائے گئے تو فرمایا:انہیں بھی بیتُ المال میں جمع کروادو حتّٰی کہ جب اپنے ذاتی خچر پر سوار ہو کر شاہی قالینوں تک پہنچے تو ان کو پاؤں سے ہٹا کر نیچے چٹائی پر بیٹھ گئے اور ان بیش قیمت قالینوں کو بھی بیتُ المال میں جمع کروا دیا۔ (سیرتِ ابن عبد الحکم، ص33) خلیفہ بننے کے بعد آپ کی کیفیت آپ نے خلیفہ بننے کے بعد اپنی ساری زمینیں، غلام، کنیزیں، لباس، خوشبوئیں اور دیگر سامان بیچ کر ساری رقم راہِ خدا میں خرچ کر دی،یہاں تک کہ آپ کی ترغیب پر آپ کی سعادت مند بیوی نے بھی اپنے زیورات بیتُ المال میں جمع کروادیئے۔گھریلو اخراجات کے لئے روزانہ صرف دو دِرہم وظیفہ لیتےاور مرتے دم تک بیتُ المال سے کبھی کوئی چیز ناحق نہیں لی،خلیفۂ وقت کی بیوی نے گھر کے لئے کوئی ملازمہ نہ رکھی بلکہ سارے کام خود کرتیں۔(سیرتِ ابن عبد الحکم، ص124، سیرتِ ابن جوزی،ص 186ملخصاً) خلیفۂ وقت کا لباس خلیفہ بننے سے قبل نہایت بیش قیمت لباس پہنتے تھے، خود فرماتے ہیں:”جب میرے کپڑوں کو لوگ ایک مرتبہ دیکھ لیتے تو میں سمجھتا اب یہ پُرانا ہو گیا ہے۔“ بسا اوقات ایک ہزار دِینار کا عمدہ جُبّہ خریدا جاتا تو فرماتے: کاش! یہ کُھردرا نہ ہوتا مگر جب تختِ خلافت کو زِینت بخشی تو اپنی زِینت ترک کر دی اور آپ کیلئے پانچ دِرہم کا معمولی سا کپڑا خریدا جاتا تو فرماتے: کاش! یہ نرم نہ ہوتا تو کتنا اچھا تھا۔(سیرت ابن جوزی،ص172،احیاء العلوم،ج3،ص897)ناجائز قبضے ختم کروائے سابق خلیفہ کے بیٹے رَوح نے چند مسلمانوں کی دکانوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ان کی شکایت پر حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حکم دیا کہ ان کی دکانیں واپس کر دو اور اپنے پولیس افسر سے فرمایا: اگر یہ دکانیں واپس کر دے تو ٹھیک ورنہ سزائے موت دے دینا۔ چنانچہ اس نے ناجائز قبضہ چھوڑ کر دکانیں اصل مالکوں کو لوٹا دیں۔(سیرت ابن عبد الحکم، ص52) محتاجوں کی خیر خواہی اندھوں، محتاجوں، فالج کے مریضوں اور اپاہجوں کے لئے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے وظائف مقرر فرمائے بلکہ ان کے روزمرّہ کے کاموں کے لئے انہیں غلام بھی دیئے، حتّٰی کہ غیر شادی شدہ افراد کی شادیاں کروائیں، مقروضوں کے قرض اتارے اور کسی بھی شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے کی خیرخواہی کو فراموش نہیں کیا۔ عوا می خوشحالی الغرض آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اڑھائی سالہ دورِ خلافت میں ظلم و ناانصافی اور کرپشن کا سدِّ باب کر کے عدل و انصاف اور عوامی خدمت کی ایسی مثال قائم کر دی کہ اگر کوئی صدقہ دینا چاہتا تو صدقہ لینے والا کوئی نہ ملتا، یہاں تک کہ جو لوگ آپ کی خلافت سے پہلے صدقہ لیا کرتے تھے وہ خوش حال ہو کر خود صدقہ دینے کے قابل ہوگئے۔ (سیرتِ ابن عبدالحکم،ص 106،طبقاتِ ابنِ سعد،ج 5،ص268)

اللہپاک کی اُن پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…شعبہ تراجم المدینۃ العلمیہ ،باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code