تذکرہ صدرالافاضل

امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت مجدّدِ دین وملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰنکے خُلَفا میں ایک اہم شخصیت صدرُ الاَفاضِل، بدرُالاماثِل مفتی سیّد محمد نعیم الدّین مرادآبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی کی ہے۔آپ علیہ الرَّحمہ بَیَک وقت مفسّر، محدّث، مُناظر، خطیب، محرّر (Writer) اورقومی راہنماتھے۔

پیدائش آپ کی ولادت 21 صفر المظفر 1300 ھ بمطابق یکم جنوری 1883ء کو مراد آباد(ہند) میں ہوئی۔ تاریخی نام غلام مصطفیٰ رکھا گیا مگر سیّد محمد نعیم الدّین کے نام سے مشہور ہوئے۔

تعلیم آٹھ سال کی عمر میں قراٰنِ پاک حفظ کر لیا۔ والد ِ مکرّم مولانا سیّد مُعین الدّین نُزْہَت سے اردو اور فارسی لکھنا پڑھنا سیکھی۔ درسِ نظامی کی تعلیم مولانا شاہ فضل احمد امروہی اور مولانا شاہ گل محمد قادری علیہما رحمۃ اللہ الہادِی سے حاصل کی۔ 19سال کی عمر میں درسِ نظامی سے فراغت حاصل کی اور ایک سال فتویٰ نویسی کی مشق فرمائی۔

اعلیٰ حضرت سے تعلّق 20سال کی عمر میں پہلی کتاب علم ِ غیب نَبَوی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پرتالیف فرمائی جس کا نام "اَلْکَلِمَۃُ الْعُلْیَا لِاِعْلَاءِ عِلْمِ الْمُصْطَفٰی"ہے۔ جب یہ کتاب امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کی بارگاہ میں پیش کی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا: مَا شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بڑی عمدہ نفیس کتاب ہے۔ یہ نوعمری اور اوراتنے احسن دلائل کے ساتھ اتنی بلند کتاب مُصنّف کے ہونہار ہونے پر دالّ(یعنی دلالت کرتی)ہے۔ (حیاتِ صدر الافاضل، ص33) پھر اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت کی بارگاہ میں پہلی بار حاضری کا شرف ملا۔ اس کے بعد آپ کی یہ حالت ہوگئی کہ ہر ہرپیر اور جمعرات کولازمی اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت کی بارگاہ میں حاضری دیتے (ایضاً)۔ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت آپ پر بہت اعتماد فرماتے اور اہم امور میں آپ سے مشورہ فرماتے تھے۔ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت کے ترجمۂ قراٰن بنام” کنزالایمان“ پر آپ نے تفسیری حاشیہ خزائن العرفان تحریر فرمایا۔ جو سابقہ معتَمد تفاسیر کا خلاصہ اور مشہورِ زمانہ ہے۔

شرفِ بیعت اور اجازت و خلافت آپ نے اپنے استادِ مکرم مولانا شاہ گل محمد قادریعلیہ رحمۃ اللہ القَویسے سلسلۂ عالیہ قادریہ میں شرفِ بیعت حاصل کیا۔اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت کے علاوہ آپ کو اپنے مرشِد گرامی اور شیخ المشائخ مولانا شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے بھی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔ (بانیان سلسلہ نعیمیہ، ص206)

تدریسی خدمات 1910ء میں آپ علیہ الرَّحمہ نے مراد آباد میں مدرسہ انجمن اہلِ سنّت وجماعت کی بنیاد رکھی جو بعد میں جامعہ نعیمیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ آپ کی تربیت سے ایسے شاگردتیار ہوئے جنہوں نے مزید مدارس قائم فرمائے۔ بانیِ دارالعلوم حزب الاحناف مولانا ابوالبرکات سیّد احمد قادری صاحب، بانیِ دار العلوم نعیمیہ کراچی مولانا محمد عمر نعیمی، بانی ِدارالعلوم حنفیہ بصیر پور اوکاڑہ مولانا ابوالخیر نور اللہ نعیمی، بانی دارالعلوم جامعہ نعیمیہ لاہور مفتی محمد حسین نعیمی علیھم الرحمۃ ان چند میں سے ایک ہیں۔ (حیاتِ صدرالافاضل،تقدیم،ص13 ملخصاً)

دیگر خدمات آپ کے دور میں عقائد واعمال میں طرح طرح کے فتنے پیدا ہورہے تھے ۔ آپ نے ان تمام کے ردّ میں قائدانہ کردار اداکیا۔ تحریکِ پاکستا ن میں بھی آپ کا کردار مثالی رہا۔آپ کی کوششوں سے بنارس(ہند) میں آل انڈیا سنی کانفرنس 1946ء میں منعقد ہوئی جس میں مطالبۂ پاکستان کی زبردست حمایت کی گئی۔ (حیات صدرا الافاضل،ص189 ملخصاً)

تصانیف آپ کی تصانیف میں تفسیرِ خزائنُ العرفان کے علاوہ ٭اَطْیَبُ الْبَیان فِی رَدِّ تَقْوِیَۃِ الْاِیمان،٭کتابُ العقائد، ٭سوانحِ کربلا،٭کشفُ الحِجابِ عَنْ مَسَائلِِ اِیصالِِ الثَّواب، ٭سیرتِ صحابہ ٭آدابُ الاخیار اور ٭نعتیہ دیوان بنام ریاض نعیم وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے پندرہ روزہ رسالہ”السواد الاعظم“ بھی جاری فرمایاجو بعد میں ماہنامہ بنا۔

وصال آپ علیہ الرَّحمہ کا وصال مبارک 19 ذوالحجۃ الحرام 1367ھ بمطابق 23اکتوبر 1948ء بروز جمعۃ المبارک کو ہوا۔ (بانیان سلسلہ نعیمیہ حاشیہ ص 251)جامعہ نعیمیہ مرادآباد ہندکی مسجد کے گوشے میں آپ کا مزار مبارک رحمتِ الٰہی کے سائے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آپ پر رحمت ہواور آپ کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

ان کی سیرت کی مزید معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ رسالے ”تذکرۂ صدر الافاضل“ کا مطالعہ فرمائیے۔

سب سے پہلے کلیجی کھانا سنّت ہے

نبیِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا معمول تھا کہ نمازعید الاضحیٰ سے فارغ ہونے کےبعد اپنے دستِ مبارک سے قربانی کے جانور کو ذبح فرماتے اور کلیجی پکانے کا حکم دیتے،جب وہ تیار ہوجاتی تو اس سے تناول فرماتے۔ قربانی کرنےوالے کے لئے سنّت ہے کہ قربانی کے گوشت میں سےسب سے پہلے کلیجی کھائے کہ اس میں نبی پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے عمل سے مشابہت اور نیک شگون ہے کیونکہ اہل جنّت کو جنت میں سب سے پہلے اس مچھلی کی کلیجی کھلائی جائے گی جس پر زمین ٹھہری ہوئی ہے۔ (المدخل،ج1،ص205 ملخصاً)

امیرِ اہلِ سنّت کے والدِ محترم

شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے والدِ ماجد حاجی عبدالرحمٰن قادری علیہ رحمۃ اللہ البارِی باشَرْع اور پرہیزگار آدمی تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اکثر نگاہیں نیچی رکھ کر چلا کرتے تھے، بہت سی احادیث زبانی یاد تھیں اور سلسلۂ عالیہ قادریہ میں بیعت تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ 1370ھ میں حج پر روانہ ہوئے، اَیّامِ حج میں مِنٰی میں سخت لُو چلی جس کی وجہ سے مختصر عَلالت کے بعد آپ 14ذوالحجۃ الحرام 1370ھ کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسابمغفِرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(آپ کی سیرت کی مزید جھلکیاں ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ذوالحجۃ الحرام 1438ھ كے صفحہ45پر ملاحظہ کیجئے۔)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭مدرس جامعۃ المدینہ،ماریشس


Share

Articles

Comments


Security Code