شہر دمشق کی علمی و فلاحی سرگرمیاں(قسط:04)

تاریخ کے اوراق

شہرِ دمشق کی علمی و فلاحی سرگرمیاں ( قسط : 04 )

*مولانا محمد آصف اقبال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2023

تاریخ میں جو شہر اسلامی تعلیم وتربیت اور دین کی نشرو اشاعت میں سرفہرست رہے ان میں دمشق کا نام بھی شامل ہے ، سلطنتِ اسلامیہ کے خلفا ، ائمۂ دین اور اکابر علمائے کرام نے اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ، یہاں مختلف تعلیمی ادارے بنائے ، مدارس قائم کئے ، مساجد بنائیں اور عوامی فلاح و بہبود کے بہت سارے کام کئے۔شہردمشق عَرُوسُ الْمَدَائن یعنی شہروں کی دلہن اور تمام مراکز کا سردار ہے ، اس شہر نے دنیا کو لاتعداد عُلَما ، اُدبا اور شُعرا دیئے ، جامع دمشق کے علاوہ کثیر مسجدیں ، مدارس اور شفاخانے اس کا طرہ امتیاز ہیں۔

اقامتی مدارسِ اسلامیہ کا قیام

500سال پرانی کتاب اَلرَّوضُ الْمِعْطار میں ہے : ایک وقت تھا کہ شہر میں 20مدارس تھے ، یہاں قراٰنِ کریم پڑھنے والوں کی رہائش کےلئے بہت سارے گھر وقف تھے اور قراٰنِ کریم حفظ کرنے اور علم حاصل کرنے والے مسافر طلبہ کے لئے شہر میں بے شمار سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔ شہر میں تقریباً ایک سو حمّام تھے جس سے ملحقہ عمارتوں میں چالیس وضو خانے تھے ، کثیرمسافرخانے ہونے کےباعث مسافرطلبہ وغیرہ کے لئے اس سے اچھا شہر کوئی نہیں تھا۔)[1](

دار الحدیث کا قیام

درست عقائد اور احادیثِ مبارکہ کی نشرواشاعت کے لئے بڑی محنت اور کوشش سے کام لیا گیا اور حدیث کی تعلیم کے لئے ”دارُ الحدیث“ کے نام سے ادارہ قائم ہوا۔جس کے پہلے مُعلِّم وشیخُ الحدیث شافعی عالمِ دین ، محقق ، مؤرخ اور عظیمُ الشان محدث امام ابو القاسم علی بن حسن معروف بہ ابن عساکر رحمۃُ اللہ علیہ مقرر ہوئے۔)[2](امامِ اہلِ سنّت ، امام احمد رضا خان حنفی قادری رحمۃُ اللہ علیہ اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں : یہ دارُالحدیث ہمیشہ مجمعِ ائمہ وعلما رہا ، امامِ اجل ابوزکریا امام نوَوِی ”شارح صحیح مسلم“ اس میں مدرس تھے پھر امام خاتم المجتہدین ابوالحسن تقی الدین علی بن عبدالکافی سبکی ”صاحبِ شفاء السقام“ ان کے جانشین ہوئے ، یونہی اکابر علمانے یہاں درس دیا۔)[3](

مدرسہ العادلیہ کا قیام

اس شہر میں سلطان نورُالدین زنگی ہی نے مدرسہ العادلیہ  ( عادلیۃ الکبری ) کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ عالَمِ اسلام کی مرکزی درسگاہ تھی جس میں ابنِ خلکان ، جلال ُالدّین القزوینی اور ابنِ مالک نحوی جیسی عظیم ہستیاں تدریسی خدمات انجام دیتی رہیں۔)[4](

جامع دمشق اور اس کی انوکھی باتیں

دمشق کے عجائبات میں سے یہاں کی جامع مسجد بھی ہے ، یہ ایک عجوبہ ہے اور بہترین خوبیوں اور نایاب چیزوں کا مجموعہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں : جامع مسجد کے عجائبات سے ہے کہ اگر کوئی سوسال زندہ رہے اور وہ روزانہ اس کی عمارت میں غور کرے وہ ہر دن اس میں ایسی خوبصورت کاریگری اور زبردست نقش ونگار دیکھے گا جو پہلے کبھی نہ دیکھے ہوں گے۔

یہ مسجد خلیفہ ولید بن عبدالملک نے 88ہجری میں بڑے اہتمام کے ساتھ تعمیر کروائی ، یہ اسلامی فنِّ تعمیر کا عظیم ترین شاہکار ہے۔مسجدکی چوڑائی تین سو ذراع  ( ہاتھ ) جبکہ لمبائی دوسو ذراع ہے اور یہ 78ستونوں پر قائم ہے۔ چونکہ جہاں مسجد بنائی گئی وہ نصف جگہ مسلمانوں کے پاس تھی اورنصف عیسائیوں کے پاس تھی ، خلیفہ نے وہ باقی نصف بھی ان سے لے کر مسجد میں شامل کردی۔بعد میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہ علیہ نے اس جگہ کے عوض عیسائیوں کو بہت زیادہ مال دیا جو انہوں نے قبول کرلیا۔)[5](

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا نزول

 قربِ قیامت میں جب دجّال ساری دنیا گھوم پھر کر ملک شام کو جائے گا تو اُس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السّلام آسمان سے جامع مسجد دمشق کے شرقی مینارہ پر اتریں گے ، صبح کا وقت ہوگا اور نماز ِفجر کے لئے اقامت ہوچکی ہوگی۔)[6](

شہرِ دمشق کی خانقاہیں

خانقاہ علم و روحانیت اور مجاہدہ و ریاضت کا مرکز ہوتی ہے۔ شہر دمشق میں بھی حضراتِ صوفیائے کرام نے بہت زیادہ خانقاہیں قائم فرمائیں۔)[7]( دمشق کی اولین خانقاہ طاروسیہ ہے جس کے آخری آثار1938ء میں معدوم ہوگئے تھے۔)[8]( سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃُ اللہ علیہ کے والد گرامی نجم الدین ایوب کی دو خانقاہیں تھیں ، ایک مصر میں اور دوسری دمشق میں۔)[9](

دِمشق کے شفاخانے اور دیگر مراکز

جہاں تک شفاخانوں اور دیگر مذہبی وثقافتی مراکز کی بات ہے تو وہ بھی بڑی تعداد میں دمشق میں قائم کئے گئے تھے۔ چنانچہ دَقاق کے دورِ حکومت میں شہر کا قدیم ترین شفاخانہ جامع مسجد کے مغرب میں تعمیر ہواتھا۔)[10](دمشق میں مارستان نامی شفاخانہ قائم ہوا جس کی عمارت کو اسلامی فنِّ تعمیر کی تاریخ میں اہم ترین اہمیت حاصل ہے۔  )[11](

سلطان سلیم اول نے شیخ محیُّ الدّین ابنِ عربی رحمۃُ اللہ علیہ کے مزار کے پاس ایک لنگرخانہ بنوادیا تھاکہ اس عظیم صوفی بزرگ کے مزار کی زیارت کے لئے آنے والوں کو فی سبیلِ اللہ کھانا پیش کیا جاسکے۔یوں ہی مسجد تَنکیز کے مغرب میں درویشوں کے لئے ایک مرکزتکیہ مربویہ میں قائم ہوا۔)[12](

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ تراجم ، المدینۃُ العلمیہ    Islamic Research Center



[1] الروض المعطار فی خبر الاقطار ، 1 / 240

[2] اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، 9 / 409-22 / 503

[3] فتاوی ٰرضویہ ، 22 / 351

[4] اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، 9 / 409-22 / 503

[5] آثار البلاد واخبار العباد ، 1 / 190 ، الروض المعطار فی خبر الاقطار ، 1 / 238 ، اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، 9 / 404-408

[6] مسلم ، ص1201 ، حدیث : 7373-بہار شریعت ، 1 / 22

[7] الروض المعطار فی خبر الاقطار ، 1 / 240

[8] اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، 9 / 408

[9] البدایۃ والنہایۃ ، 12 / 272

[10] اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، 9 / 408

[11] اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، 9 / 409

[12] اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، 9 / 419


Share

Articles

Comments


Security Code