تاجروں کے لئے

 رمضان لُوٹنے کا نہیں لُٹانے کا مہینا

* سید بِہرام حسین عطاری مدنی

ماہنامہ اپریل 2022

 ماہِ رَمَضان کی عظمت وشان :

خُدائےحَنَّان ومَنَّان کے اِس اُمَّت پر بےشمار فضل و احسانات ہیں ، ان میں سے ایک فضل و اِحسان یہ بھی ہے کہ اس کریم رَب نے اِس اُمَّت کو ماہِ رمضان جیسا رحمتوں اور برکتوں والا مہینا عطا فرمایا ہے۔ وہ مُبارک مہینا جو تمام مہینوں کا سردار ہے۔ [1] جس میں رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ [2] آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ [3] جنَّت کے دَروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، دوزخ کے دَروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین زَنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ [4]اِس مُبارک مہینے کو پانے کے لئے ہمارے پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  رجب کے مہینے سے ہی یوں دُعا فرمایا کرتے : اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْ رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ یعنی اے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان سے ملا دے۔ [5]

صحابہ کِرام کا اِہتمام :

اِس مبارک مہینے میں خوب خوب عبادت کرنے کے لئے صحابۂ کِرام  رضی اللہُ عنہم  شعبانُ المعظم سے ہی تیاریاں شروع کر دیتے چنانچہ حضرت اَنس بن مالک  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں : شعبان کا چاند نظر آتے ہی صحابۂ کِرام رضی اللہُ عنہم تِلاوتِ قراٰنِ پاک کی طرف خوب مُتَوَجِّہ ہو جاتے ، اپنے اموال کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ غُرَبا و مساکین مسلمان ماہِ رمضان کے روزوں کے لئے تیاری کر سکیں ، حُکّام قیدیوں کو طلب کر کے جس پر حد (یعنی شرعی سزا) جاری کرنا ہوتی اُس پر حد قائم کرتے ، بقیہ میں سے جن کو مناسب ہوتا اُنہیں آزاد کر دیتے ، تاجر اپنے قرضے ادا کر دیتے ، دوسروں سے اپنے قرضے وصول کر لیتے۔ (یوں ماہ ِ رمضان المبارَک سے قبل ہی اپنے آپ کو مصروفیات سے فارِغ کر لیتے) اور رمضان شریف کا چاند نظر آتے ہی غسل کر کے (بعض حضرات) اِعتکاف میں بیٹھ جاتے۔ [6]

موجودہ مسلمانوں کی حالتِ زار :

ایک طرف تو سرکارِ عالی وقار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اور صحابۂ کرام  رضی اللہُ عنہم  کا رمضانُ المبارک کے مہینے کیلئے اس قدر اہتمام ہوتا تھا جبکہ دوسری طرف آج مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ پہلے کے مسلمانوں کو عبادت کا ذوق ہوتا تھا! مگر افسوس! آج کل کے مسلمانوں کو زیادہ تر حصولِ مال ہی کا شوق ہے۔ پہلے کے مسلمان متبرَّک ایام (یعنی برکت والے دنوں) میں اللہ پاک کی زیادہ سے زیادہ عبادت کر کے اس کا قرب حاصل کرنے کی کوششیں کرتے تھے اور آج کل کےبعض مسلمان مبارَک دنوں ، خصوصاً ماہِ رمضان المبارک میں دُنیا کی ذلیل دولت کمانے کی نئی نئی ترکیبیں سوچتے ہیں۔ اللہ پاک اپنے بندوں پر مہربان ہوکر نیکیوں کا اجر و ثواب خوب بڑھا دیتا ہے ، لیکن دُنیا کی دولت سے محبت کرنے والے لوگ رمضان المبارک کے آتے ہی لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے روزمرہ کے استعمال کی ضروری اَشیاء مثلاً آٹا ، گھی ، چینی ، دال ، کھجوروں ، پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں بڑھا کر غریب مسلمانوں کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو گاہک کی غفلت سے پورا پورا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اچھے دام لینے کے باوجود ناقص اور خراب چیز تھما دیتے ہیں۔

ماہِ رمضان لوٹنے کا نہیں لُٹانے کا مہینا :

یاد رکھئے! رمضانُ المبارک لوٹنے کا نہیں لٹانے کا مہینا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں ہر نیکی کا ثواب ستر گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ [7] نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70گنا کر دیا جاتا ہے۔ [8] جن لوگوں کو اللہ پاک نے مال ودولت کی نعمت سے نوازا ہے وہ دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ اپنے مال کے ذریعے بھی خوب خوب نیکیوں کا ذخیرہ اکٹھا کریں۔

ماہِ رمضان میں خرچ کرنے کا ثواب :

اس مبارک مہینے میں خرچ کرنا راہِ خدا میں خرچ کرنے اور جہاد میں خرچ کرنے کا درجہ رکھتا ہے جیسا کہ سردارِدو جہا ں ، محبوبِ رحمٰن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا فرمانِ برکت نشان ہے : ماہِ رمضان میں خرچ میں کُشادَگی کرو کیونکہ ماہِ رمضان میں خرچ کرنا اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے کی طرح ہے۔ [9] امیرُالمؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  فرمایا کرتے : اُس مہینے کو خوش آمدید! جو ہمیں پاک کرنے والا ہے۔ پورا رمضان خیر ہی خیر (یعنی بھلائی ہی بھلائی) ہے دن کا روزہ ہویا رات کا قیام ، اس مہینے میں خرچ کرنا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا دَرَجہ رکھتا ہے۔ [10]

اہلِ قرابَت سے بھلائی کرنے کا ثواب :

اپنا مال گھر والوں ، اہلِ قرابت ، غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کریں کہ “ اس مہینے میں سارے مسلمانوں سے خاص کر اہلِ قرابت سے بھلائی کرنا زیادہ ثواب ہے اس لئے اسے ماہِ مُؤَاسات کہتے ہیں ، اس میں رزق کی فراخی بھی ہوتی ہے کہ غریب بھی نعمتیں کھا لیتے ہیں اسی لئے اس کا نام ماہِ وسعتِ رزق بھی ہے۔ “ [11]

روزہ افطار کروانے کی فضیلت :

اپنے مال کے ذریعے روزہ داروں کو اِفطا رکروائیں کہ حضورِ انور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : یہ مہینا مُؤاسات (غمخواری اور بھلائی) کا ہے اور اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے۔ جو اس میں روزہ دار کو افطار کروائے اُس کے گناہوں کے لئے مغفرت ہے اور اُس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جائے گی اور اس افطار کروانے والے کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا روزہ رکھنے والے کو ملے گا۔ بغیر اس کے کہ اُس کے اجرمیں کچھ کمی ہو۔ (صحابۂ کرام  رضی اللہُ عنہم  نے عرض کی : ) یا رَسُولَ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! ہم میں سے ہر شَخص وہ چیز نہیں پاتا جس سے روزہ اِفطار کروائے۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اِرشاد فرمایا : اللہ پاک یہ ثواب تو اُس کو دے گا جو ایک کھجوریا ایک گھونٹ پانی یا ایک گُھونٹ دودھ سے روزہ افطار کروائے اور جس نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلایا ، اس کو اللہ پاک میرے حوض سے پلائے گا کہ کبھی پیاسا نہ ہو گا۔ یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو جائے۔ [12] ایک اور روایت میں ارشاد فرمایا : جس نے حلال کھانے یا پانی سے (کسی مسلمان کو) روزہ افطار کروایا ، فِرشتے ماہِ رمضان کے اوقات میں اُس کے لئے اِستغفار کرتے ہیں اور جبریل ( علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام ) شبِ قدرمیں اُس کے لئے استغفار کرتے ہیں۔ [13]

لوگوں کے ساتھ خیرخواہی کیجیے :

رمضان المبارک میں لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کے ساتھ خیرخواہی کیجئے۔ حضرت جریر بن عبد اللہ  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں : میں نے حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے نماز پڑھنے ، زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان کی خیرخواہی کرنے پر بیعت کی۔ [14]اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : ہر فردِ اسلام کی خیرخواہی (یعنی بھلائی چاہنا) ہرمسلمان پر فرض ہے۔ [15] خیرخواہی کی ایک صورت یہ ہے کہ گاہک کی مجبوری سے فائدہ نہ اُٹھایا جائے بلکہ رِعایت کرتے ہوئے سستے داموں میں چیز دے دی جائے۔ یوں ہی خیرخواہی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک میں اپنے ملازمین سے کام کم لیں تاکہ وہ بھی بآسانی روزے رکھ سکیں ، حدیثِ پاک میں ہے : جو اپنے غُلام پر اس مہینے میں تخفیف کرے (یعنی کام کم لے) اللہ پاک اُسے بخش دے گااور جہنم سے آزاد فرما دے گا۔ [16]اللہ پاک ہمیں ماہِ رمضان کے فیضان سے مالا مال فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، شعبہ ملفوظات امیرِ اہلِ سنت ، المدینۃ العلمیہ ، کراچی



[1] معجم کبیر ، 9 / 205 ، حدیث : 9000

[2] مسلم ، ص420 ، حدیث : 2496

[3] بخاری ، 1 / 626 ، حدیث : 1899

[4] مسلم ، ص420 ، حدیث : 2495

[5] معجم اوسط ، 3 / 85 ، حدیث : 3939 ، موسوعہ لابن ابی الدنیا ، 1 / 361

[6] غنیۃ الطالبین ، 1 / 341

[7] مراٰۃ المناجیح ، 3 / 137

[8] صحیح ابنِ خزیمہ ، 3 / 191 ، حدیث : 1887

[9] جامع صغیر ، ص162 ، حدیث : 2716

[10] تنبیہ الغافلین ، ص 177

[11] تفسیرِ نعیمی ، پ2 ، البقرہ ، تحت الآیۃ : 185 ، 2 / 208

[12] صحیح ابن خزیمہ ، 3 / 192 ، حدیث : 1887 ملتقطاً

[13] معجم کبیر ، 6 / 261 ، حدیث : 6162

[14] بخاری ، 1 / 35 ، حدیث : 57

[15] فتاویٰ رضویہ ، 14 / 415

[16] صحیح ابنِ خزیمہ ، 3 / 192 ، حدیث : 1887


Share

Articles

Comments


Security Code