تاجر صحابہ کرام (قسط : 10)

حضرت سیدنا مِسْوَر بن مَخْرَمہ رضی اللہُ عنہما

* مولانابلال حسین عطاری مدنی

ماہنامہ مارچ2021

مختصر تعارف : تجارت كو ذريعۂ معاش بنانے والے صحابۂ کرام کی صف میں ایک تاجر حضرت سیّدنا مِسور بن مَخْرَمہ قرشی  رضی اللہُ عنہما  بھی ہیں ، آپ کی پیدائش 2ہجری کو مکّۂ مکرمہ میں ہوئی ، آپ حضرت عبدُالرّحمٰن بن عوف  رضی اللہُ عنہ  کے بھانجے ہیں ، فتحِ مکّہ کے سال 8 ہجری میں مدینہ آئے ، آپ کا شمار  کم عمرصحابہ میں ہوتا ہے ، آپ نے بچپن میں حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے فیض پایا ، جانِ کائنات  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی وفات کے وقت آپ کی عمر آٹھ سال تھی ، مختلف جنگوں میں بھی شرکت کی ،  حضرت عثمان ِ غنی  رضی اللہُ عنہ  کی شہادت تک مدینۂ منوّرہ ہی میں رہے بعد میں مکۂ مُکرّمہ كو جائے رہائش بنایا۔ آپ کی وفات 64 ہجری میں ہوئی۔ آپ کی نمازِ جنازہ حضرت عبدُاللہ بن زبیر  رضی اللہُ عنہما  نے پڑھائی اور آپ کی تدفین مکّے کے مشہور قبرستان جَنّتُ المَعْلٰیٰ میں ہوئی۔ ([i])

خرید و فروخت میں احتیاط و مشاورت : جنگِ قادسیہ کے موقع پر آپ کو یاقوت و زَبرجد سے جَڑا ہوا سونے کاکوئی برتن مِلا تھا جس کے بارے میں آپ کو معلومات نہیں تھیں ، جب ایک فارسی شخص نے آپ سے وہ برتن10ہزار میں خریدنا چاہا تو آپ کو اندازہ ہوا کہ یہ ضرور کوئی قیمتی چیز ہے اسی لئے آپ وہ برتن اس فارسی کو بیچنے کے بجائے حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی اللہُ عنہ  کے پاس لے آئے اور انہیں سارا قصہ بتایا ، حضرت سعد  رضی اللہُ عنہ  نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ یہ برتن 10ہزار کا مت بیچئے! بعد ازاں حضرت سعد  رضی اللہُ عنہ  نے آپ کا وہ قیمتی برتن 1 لاکھ میں بیچ کر آپ کو رقم دے دی۔ ([ii])

بحران (Crisis) کے دِنوں میں انوکھی تجارت : آپ نے کھانے کی کثیر  اشیا ء کا ذخیرہ کیاہواتھا مگر جب خزاں کاموسم آیا تو آپ نے ایسی سنگین صورتِ حال سے فائدہ اُٹھا کراپنا مہنگا بیچنے کے بجائے بازار میں آکر اسے اُسی قیمت میں بیچنے کا اعلان کردیا جس قیمت پر خریدا تھا۔ ([iii])

بازار میں بھی دینی مصلحتیں پیشِ نظر رہتیں : ایک مرتبہ آپ  رضی اللہُ عنہ  سامانِ تجارت لے کر بازارِ عُکاظ پہنچے جہاں ایک شخص کو امامت کرتے دیکھا ، آپ نے اسے پیچھے کرکے اس کی جگہ دوسرے شخص کو امامت کےلئے کھڑا کردیا ، اس شخص کو غصہ آیا اور اس نے امیرُ المؤمنین حضرت عمر  رضی اللہُ عنہ  سے اس معاملے کی شکایت کردی۔ جب حضرت عمر  رضی اللہُ عنہ  نے اس معاملے پر آپ سے جواب طلب کیا تو آپ نے وضاحت دی کہ امیرُالمؤمنین! عُکاظ ایسا بازار ہے جہاں بہت لوگ آتے ہیں ان میں سے زیادہ تر تو وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے قراٰن نہیں سُنا ہوتا ، اور وہ شخص جسے میں نے امامت کرنے سے روکا ، اس کی زبان میں توتلا پَن تھا جس کے سبب وہ ٹھیک سے الفاظ کی ادائیگی نہیں کرپارہا تھا ، مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں اس طرح قراٰن سننے سے لوگ اختلاف میں نہ پڑجائیں تو میں نے اس کی جگہ صاف عربی بولنے والے شخص کو کھڑا کردیا۔  یہ وضاحت سُن کر حضرت عمر  رضی اللہُ عنہ  نے آپ کے اس عمل کو سراہتے ہوئے آپ کو دُعا دی۔ ([iv])

اللہ پاک حضرت مِسور  رضی اللہُ عنہ  کے طفیل ہمیں بھی دورانِ تجارت مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، شعبہ ذمہ دار   ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



([i])الاستیعاب ، 3 / 456 ، 455 ، الاعلام للزرکلی ، 7 / 225

([ii])تاریخ ابن عساکر ، 58 / 170

([iii])الزھد لاحمد ، ص 220

([iv])تاریخ ابن عساکر ، 58 / 166مفہوماً


Share

Articles

Comments


Security Code