تاجروں کے لئے

مارکیٹوں میں رائج برائیاں

* مولانا عبد الرحمٰن عطاری مدنی

ماہنامہ جنوری2022

آج کل مارکیٹوں میں جھوٹ ، دھوکا دہی اور ملاوٹ جیسے ناسور اس قدر عام ہوگئے ہیں اور لوگ ان گناہوں کے اتنے عادی ہوچکے ہیں جیسے ان میں کوئی برائی ہی نہ ہو۔ چاول ہو یا آٹا ، پھل ہو یا سبزی ، دالیں ہوں یا گوشت ہر چیز میں ملاوٹ اور دھوکا دہی ہے۔ ذیل میں مارکیٹ میں رائج برائیوں کی چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔

نقل کو اصل کہہ کر بیچنا :

بعض اوقات چیز کی ایسی خصوصیات بتائی جاتی ہیں جو اس میں موجود نہیں ہوتیں اور خریدنے والے کا یہ ذہن بنایا جاتا ہے کہ ان خصوصیات کی بنا پر اس کی قیمت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر مارکیٹوں میں بہت سی چیزوں کی نقل(Copies)ملتی ہیں ، بعض دھوکے باز انہیں اصل (Original) بتاکر بیچ دیتے ہیں اور یوں زیادہ رقم وصول کرلیتے ہیں ، بعض اوقات تو خود بیچنے والے نے بھی کبھی اصل (Original)کی شکل نہیں دیکھی ہوتی۔ یونہی کبھی سیکنڈ کاپی کو فرسٹ کاپی کہہ کر بیچ دیا جاتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص امپورٹڈ چیز خریدنے آتا ہے اسے لوکل چیز امپورٹڈ ظاہر کرکے تھما دیتے ہیں۔

*کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی گاڑی شوروم میں ڈینٹ اور  پینٹ شدہ کھڑی ہوتی ہے جس پر ایک سے زیادہ بار پینٹ ہوچکا ہوتا ہے ، بعض بیچنے والے اسے اصل (Original) پینٹ بتا کر بیچ دیتے ہیں اورکہیں کہیں تھوڑا گِھسا ہوا بھی رکھتے ہیں تاکہ دوبارہ پینٹ ہونے کا شک نہ گزرےاور گاہک کو مطمئن کرنے کے لئے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہاں مارکیٹ میں مکینک موجود ہیں ، ان سے چیک کروالیں اور اس طرح کے لوگوں کی مکینکوں سے سیٹنگ ہوتی ہے۔

*کسی مشہور کمپنی کی پراڈکٹ مارکیٹ میں بہت زیادہ چل رہی ہوتی ہیں ، اسی کے نام سے نقلی چیز بنا کر اس پر اصل کمپنی کا لیبل لگاکر بیچ دی جاتی ہے بالخصوص کا سمیٹکس کے کام میں اس طرح کی بہت گڑ بڑ ہوتی ہے۔ راقمُ الحروف کو تیل کے کام کا تجربہ ہے ، اس کام میں بھی بعضوں کی یہ شرارت ہوتی ہے کہ تیل کی مشہور کمپنی کے صاف ستھرے خالی کنستر حاصل کرکے اس میں کھلا تیل بھرا جاتا ہےاورپھر پیکنگ کرکے کمپنی کے نام سے بیچا جاتا ہے۔

ہلکی کوالٹی کی چیز کو اچھی کوالٹی کی بتانا :

کبھی ہلکی کوالٹی کی چیز اچھی کوالٹی کی بتا کر بیچ دی جاتی ہے ، مثال کے طور پر بعض جیولرز اٹھارہ کیرٹ کاسونا بائیس کیرٹ کا بتا کربائیس کیرٹ کی قیمت میں بیچ دیتے ہیں اور کاریگروں سے بائیس کیرٹ کی جھوٹی اسٹیمپ بھی لگوادیتے ہیں جسے کسٹمر کو دکھا کر مطمئن کردیا جاتا ہے اورخریدار پریہ راز اس وقت کھلتا ہے جب اسے سونا بیچنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

پوری قیمت میں کم چیز دینا اور مقدار پوری دکھانا :

*بعض پیٹرول پمپ والے بھی گاہکوں کو ٹھگنے سے باز نہیں آتے ، طریقۂ واردات یہ ہوتا ہےکہ پیٹرول ڈالنے سے پہلے وہ میٹرکو زیروپر نہیں کرتے اور پیسے پورے لے کر پیٹرول کم ڈالتے ہیں۔ پیٹرول ڈلواتے وقت یہ احتیاط کیا کریں کہ یونٹ کا میٹر چیک کرلیا کریں ، آیا وہ زیرو سے شروع ہوا ہے کہ نہیں اور پیٹرول ڈلواتے وقت نوزل کو موٹر سائیکل کی ٹینکی سے اتنا اوپر رکھوائیں کہ پیٹرول ٹینکی میں جاتے ہوئے نظر آئے اور 100 یا 200 روپے کا پیٹرول ڈلوانے کے بجائے درمیانی عدد جیسے کہ60 ، 70 یا 130 وغیرہ روپوں میں ڈلوائیں *بعض بلڈرز تعمیرات میں بہت ڈنڈی مارتے ہیں اور سریا ، سیمنٹ ، بجری وغیرہ مٹیریل ہلکی کوالٹی کا لگادیتے ہیں ، اسی طرح زیر تعمیر عمارت کا نقشہ دکھاتے کچھ ہیں اور بناتے کچھ ہیں ، نقشے میں پارکنگ ایریا بڑا دکھاتے ہیں لیکن بناتے وقت پارکنگ کا کچھ حصہ کھا کر وہاں بھی مکانات یا دکانیں بنادیتے ہیں۔

موبائل کے کاروبار میں دھوکے :

 *موبائل بیچنے والے بھی دھوکا دینے میں کسی سے پیچھے نہیں ، راقم الحروف کی دکان پر ایک شخص آیا جو پہلے موبائل کی فیلڈ سے وابستہ تھا ، اس نے اس کام میں ہونے والی برائیوں کا جو منظر پیش کیااس کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے : موبائل والے بعض اوقات ایک ملک سے تیار شدہ موبائل کسی دوسرے ملک کابتا کر بیچ دیتے ہیں ، کبھی موبائل کی کِٹس کو زیادہ پیسے ملنے کے چکر میں ڈبہ پیک بنا کر بیچ دیتے ہیں ، بعض اوقات موبائل میں کچھ ایسی چیز ڈاؤن لوڈ کرلیتے ہیں جس سے موبائل حقیقت کے خلاف Specification ظاہر کرتا ہے ، مثال کے طور موبائل اپنی Rom ، GB32 شو کرتا ہے حالانکہ اس میں GB32 نہیں ہوتی ، جب اس طرح کا موبائل خریدار واپس لے کر آتا ہے تو پیسے پورے واپس کرنے کے بجائے 40 فیصد کاٹ کر بقیہ پیسے واپس کرتے ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ انہیں موبائل کی خرابی کا علم ہوتا ہے لیکن پھر بھی کسی طرح موبائل آن کرکے کسٹمر کو بیچ دیتے ہیں اور ایسے موبائل کی گارنٹی نہیں دیتے ، وہ موبائل چونکہ خراب ہوتا ہے اس لئے کچھ دنوں میں ہی بند ہوجاتا ہے ، جب خریدار یہ موبائل واپس لے کر آتا ہے تو اس سے کہتے ہیں کہ ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ کبھی کوئی موبائل بیچنے کے لئے آتاہے اور اپنے موبائل کی قیمت  10 ہزار بتاتا ہے ، دکاندار اس موبائل کی قیمت لگوانے کے لئے اپنا بندہ اندر مارکیٹ میں بھیجتا ہے ، قیمت لگانے والا مثال کے طور پر 9ہزار لگاتا ہے تو اس کا بندہ واپس آکردھوکا دینے کے لئے کسٹمر کے سامنے اپنے مالک کو کہتا ہے کہ اس کی قیمت چھ ہزار لگ رہی ہے پھر کسٹمر اور دکان دارکے درمیان بارگیننگ ہوتی ہے ، موبائل والا ایک آدھ ہزار بڑھا دیتا ہے اور جھوٹ بولتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کی قیمت تو کم لگ رہی ہےمگرمیں تم کو مزید بڑھا کر دے رہا ہوں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دکان دار موبائل   بہت زیادہ مہنگا بیچ دیتے ہیں ، اور جب ان کو لگتا ہے کہ کسٹمر مارکیٹ میں ریٹ ٹچ کرسکتا ہے تو کسٹمر کے دکان سے نکلتے ہی اپنا بندہ اس کے پیچھے لگادیتے ہیں ، چونکہ دکان داروں کی آپس میں سیٹنگ ہوتی ہے اس لئے وہ کسٹمر جس دکان پر جاتا ہے تو اس کا بندہ دکان دار کو معاملہ اشاروں ہی اشاروں میں یا دکان دار کے موبائل میں لکھ کر اسے سمجھا دیتا ہےکہ وہ اس طرح کے موبائل کی اصل قیمت نہ بتائے بلکہ بڑھا چڑھا کر بتائے اور اس عمل کو مارکیٹ کی زبان میں ’’فیلڈنگ‘‘کہاجاتا ہے اور ’’فیلڈنگ‘‘ کا یہ سلسلہ صرف موبائل کے کام میں ہی نہیں بلکہ دیگر فیلڈوں میں بھی ہوتا ہے۔

منرل واٹر میں بھی ملاوٹ :

ایک تحقیق کے مطابق کراچی میں منرل واٹر 52 فیصد ملاوٹ شدہ فروخت کیا جاتا ہے! ایک عالمِ دین کا بیان ہے کہ میں نے بھی پہلے منرل واٹر پینا شروع کیا تھا ، ایک کین ہمارے پاس آتا تھا ، پہلی بار کچھ زیادہ پیسے دینے ہوتے تھے پھر اسی دکان پر خالی کین دے کر بھرا ہوا کین ملتا تھا ، میں دل کو منالیتا تھا کہ منرل واٹر ہے ، کبھی کبھی مجھے شک پڑتا تھا کیونکہ اس میں آئل پینٹ کی بو آتی تھی۔ ایک مرتبہ میرے ایک جاننے والے نے مجھے بتایا کہ پہلے میں نے ایک دکان پر یہ کام کیا ہے ، ہم تو یہ کرتے تھے کہ عام پانی کے نلوں سے کین بھر کر دے دیا کرتے تھے۔

آبِ زَم زَم کی جعلی فیکٹری :

دنیا میں دھوکا اتنا عام ہوگیا ہے جس کی حد نہیں ، منرل واٹر تو ایک طرف رہا ، اب تو عام پانی کو بھی آب زم زم کہہ کر بیچنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے حالانکہ اس سے تو ہماری عبادت وابستہ ہے ، آبِ زَم زَم کو عبادت کی نیت سے دیکھنے پر ایک سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے۔ جعلی آب زم زم کے متعلق ایک اخباری رپورٹ ملاحظہ کیجئے : ملاوٹ کرنے والوں نے آب زَم زَم کو بھی نہ بخشا ، پولیس نے مکّۂ مکرّمہ میں کارروائی کرتے ہوئے آبِ زَم زَم کی جعلی فیکٹری پکڑلی۔ فیکٹری سے تیار شدہ آبِ زَم زَم کی جعلی بوتلیں برآمد ہوئیں۔ فیکٹری چلانے والے 5 لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور فروخت کے لیے تیار شدہ بوتلیں و دیگر پیکنگ کے آلات بھی ضبط کرلئے گئے ہیں۔ ( روز نامہ جنگ ، 31 مئی ، 2017 بتصرف) *ملازمین بھی اپنے مالکان کو بہت دھوکا دیتے ہیں اور آنے جانے کا وقت لکھنے میں سپر وائزر سے سیٹنگ کرلیتے ہیں اور بدلے میں اپنی تنخواہ کا کچھ فیصد سپر وائزر کے لئے مختص کردیتے ہیں اور پرجیزرز یعنی ادارے کے لئے خریداری کرنے والےتو بعض اوقات ایسا دھوکا دیتے ہیں کہ اگر ان کی سیلری نہ بھی ہو تب بھی ان کا گھر چلتا رہے ، بل کم پیسوں کا بنتا ہے اور دکاندارسے ساز باز کرکے زیادہ پیسوں کا جھوٹا بل بنالیتے ہیں اور بعض اوقات تو دو نمبر کا مال خرید کر اپنے مالک کی دکان یا انڈسٹری کا بیڑا غرق کردیتے ہیں۔

مارکیٹ میں رائج برائیوں کی مزید مثالیں :

 *ذبح کے بعد پانی ڈال کر گوشت کا وزن بڑھا دینا *بڑے اور چھوٹے جانور کا گوشت مکس کرکے بیچنا *فارمی انڈوں کو رنگ کرکے دیسی بنانا *لال مرچ میں کلر مارنا *کپڑا رنگنے کے رنگ کو کھانے کا رنگ کہہ کر بیچنا *کیلوں اور آم کو ان کیمیکلز سے جلدی پکانا جن پر پابندی ہے *مال کسی اور ملک میں بنا اور اسٹیمپ کسی دوسرے ملک کی لگانا *ایکسپائر ادویات بیچنا *ناقص اور ممنوعہ رنگ کی ہوئی دالیں بیچنا *چائے کی پتی میں کالے چنے کا چھلکا ملانا وغیرہ وغیرہ۔

یہ مارکیٹ میں رائج برائیوں کی صرف چند مثالیں پیش کی ہیں ، ورنہ مارکیٹوں میں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ غورطلب بات یہ ہے کہ جب ہماری مارکیٹوں میں فراڈ اور دھوکا اتنا زیادہ عام ہے تو ہماری معیشت کیسے ترقی کرے گی! جو لوگ اس طرح کے کام کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ اپنے اوربال بچوں کے حال پر رحم کھائیں اور اپنی آخرت برباد مت کریں۔ ایسے کاموں کا دنیا میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بیماری وغیرہ دیگر جگہوں میں پیسہ برباد ہوجاتا ہےجبکہ آخرت کا عذاب الگ ہے۔ نہ جانے ہمیں رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا فرمان “ مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا (یعنی جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں) “ کیوں یاد نہیں رہتا! جس محبوب کا کلمہ پڑھتے ہیں ، جن کی محبت اور عشق کا دعویٰ کرتے ہیں اگر وہی فرمادیں کہ “ یہ ہم میں سے نہیں “ تو بھلا اور کون سی پناہ ہے جس کا سہارا لیں گے!

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچائی اور دیانت داری کے ساتھ رزقِ حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ


Share

Articles

Comments


Security Code