تفسیرِ قراٰنِ کریم

ریاضت و مجاہدہ کیا ہے؟ (قسط : 01)

* مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ فروری 2022

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ( وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۠(۶۹))

ترجمہ : اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ، ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بیشک الله نیکوں کے ساتھ ہے۔ (پ21 ، العنکبوت : 69)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر : اس آیت کے معنی بہت وسیع ہیں ، یہ شریعت و طریقت کی جامع ہے اور اس میں ریاضت و مجاہدہ کی عظمت پر روشن دلیل ہے کہ مجاہدہ کرنے والوں کےلئے راہیں کشادہ کردی جاتی ہیں ، جیسے یہ کہ جو لوگ توبہ میں کوشش کریں گے انہیں اِخلاص کی ، جو طلبِ علم میں کوشش کریں گے انہیں عمل کی اورجو اِتِّباعِ سنت میں کوشش کریں گے انہیں جنت کی راہ دکھا دیں گے۔ (مدارک ، العنکبوت ، تحت الآیۃ : 69 ، ص899 ، خازن ، العنکبوت ، تحت الآیۃ : 69 ، 3 / 457 ملتقطاً) اسی میں یہ بھی شامل ہے کہ عبادت و ریاضت ، قلبی طہارت اور تزکیہ ٔنفس کی خاطر مجاہدہ کرنے والوں کےلئے معرفتِ الٰہی ، انوار و تجلیات اور اسرارِ الٰہیہ کی راہیں کشادہ کردی جاتی ہیں ، چنانچہ امام ابوالقاسم قشیری  علیہ الرَّحمہ  فرماتے ہیں : میں نے استاد ابو علی الدقاق  رحمۃُ اللہِ علیہ  کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے اپنے ظاہر کو مجاہدے سے مزین کیا اللہ تعالیٰ اس کے باطن کو مشاہدے کے ساتھ خوبصورت بنا دے گا۔ (اس کی دلیل یہ آیت ہے) “ اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے۔ “ اور مزید صوفیاء کایہ خوبصورت قول ذکر فرمایا “ حرکت میں برکت ہے “ یعنی ظاہر کی حرکات(عبادت و ریاضت) ہی باطن کی برکات کا سبب بنتی ہیں۔ (الرسالۃ القشیریۃ ، ص306 ، 307)

مجاہدہ کا معنیٰ : امام قشیری  علیہ الرَّحمہ  مجاہدہ کا مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں : جان لو کہ مجاہدے کی بنیاد اور اس کی مضبوطی کا ذریعہ یہ ہے کہ اکثر اوقات میں نفس کو اس کی مَن پسند چیزوں سے روک دیا جائے اور اسے اس کی خواہش کی مخالفت پر مجبورکیا جائے۔ مزید فرمایا : نفس کی دو صفتیں ہیں : خواہشات میں پڑے رہنا اور نیکیوں سے دور رہنا ، لہٰذا جب نفس ، خواہشات کے زور کے وقت بے قابو ہو جائے تو اس کو تقویٰ کی لگام ڈال کر روکنا ضروری ہے اور جب نیکیوں پر عمل کے وقت اَڑنے کی کوشش کرے تو اسے اس کی خواہش کے خلاف (ریاضت کی مار سے) ہانکنا ضروری ہے۔   (الرسالۃ القشیریۃ ، ص308)

راہِ باطن میں مجاہدہ ضروری ہے ، عبادت و ریاضت کے بغیر اِس راہ میں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ چنانچہ شیخِ وقت ابو علی دقاق  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : “ جان لو کہ جو اپنی ابتداء میں مجاہدہ نہیں کرتا تو وہ اس طریقے میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ “ اورحضرت ابو عثمان المغربی فرماتے ہیں کہ جو یہ گمان کرے کہ مجاہدے کو لازم پکڑے بغیر ، راہِ سلوک میں سے کچھ اس پر کھول دیا جائے گا یا اس راہ میں سے کوئی چیز اس کے لیے منکشف کردی جائے گی تو وہ غلطی پر ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ ، ص306)

عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی

مجاہدہ و ریاضت کی دو قسمیں ہیں : ایک قسم ، ظاہری عبادات ادا کرنا اورظاہری گناہوں سے بچنا اور دوسری قسم ، باطنی عبادات بجالانا اور باطنی اخلاق واحوال پاکیزہ بنانا۔ اور ان میں دوسری قسم پہلی قسم سے زیادہ مشکل لیکن زیادہ مفید ہے۔ چنانچہ اس کے متعلق امام قشیری  علیہ الرَّحمہ  فرماتے ہیں : (مجاہدے کے معاملہ میں) عوام کی کوشش ظاہری اعمال پورا کرنے میں ہوتی ہے اور خواص کا قصد قلبی احوال کی صفائی کی طرف ہوتا ہے ، کیونکہ بھوک اور شب بیداری برداشت کرنا تو (نسبتاً) آسان ہے لیکن اَخلاق درست کرنا اور نفس کو گھٹیا چیزوں سے پاک صاف کرنا بہت مشکل ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ ، ص309)

مجاہدہ کی پہلی قسم بھی بہت عظیم ہے کہ ظاہری و جسمانی و مالی عبادت اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے ، نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سنت اور سلف صالحین کا طریقہ ہے نیز قرآن مجید میں اس کی بہت تاکید ہے۔ چند آیات ملاحظہ فرمائیں۔

صدقہ و خیرات اور قیام واستغفار کے متعلق فرمایا : (اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ(۱۷)) ترجمہ : صبر کرنے والے اور سچے اور فرمانبردار اور راہِ خدا میں خرچ کرنے والے اور رات کے آخری حصے میں مغفرت مانگنے والے(ہیں)۔ (پ3 ، اٰلِ عمرٰن : 17)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  شب بیداری وتلاوت و سجدہ کے متعلق فرمایا : (لَیْسُوْا  سَوَآءًؕ-مِنْ  اَهْلِ  الْكِتٰبِ  اُمَّةٌ  قَآىٕمَةٌ  یَّتْلُوْنَ  اٰیٰتِ  اللّٰهِ  اٰنَآءَ  الَّیْلِ  وَ  هُمْ  یَسْجُدُوْنَ(۱۱۳))ترجمہ : یہ سب ایک جیسے نہیں ، اہلِ کتاب میں کچھ وہ لوگ بھی ہیں جو حق پر قائم ہیں ، وہ رات کے لمحات میں اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں۔ (پ4 ، اٰلِ عمرٰن : 113)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

نیند قربان کرکے بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری اور التجاء و التہاب کے متعلق فرمایا : (تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘-وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(۱۶)) ترجمہ : ان کی کروٹیں ان کی خواب گاہوں سے جدا رہتی ہیں اور وہ ڈرتے اور امید کرتے اپنے رب کو پکارتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے خیرات کرتے ہیں۔ (پ21 ، السجدۃ : 16)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

راتیں حالتِ عبادت اور سجدہ و قیام میں گزارنے کے باوجود فخر و غرور کا شکار نہیں ہوتے بلکہ خدا کی بارگاہ میں جہنم سے نجات کی عاجزانہ دعائیں اور بخشش کی التجائیں کرتے ہیں ، چنانچہ فرمایا : ( كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ(۱۷) وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸)) ترجمہ : وہ رات میں کم سویا کرتے تھےاور رات کے آخری پہروں میں بخشش مانگتے تھے۔ (پ26 ، الذّٰریٰت : 17 ، 18)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اور فرمایا : ( وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا(۶۴) وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ﳓ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ(۶۵))ترجمہ : اور وہ جو اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں اور وہ جو عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب!ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے ، بیشک اس کا عذاب گلے کا پھندا ہے۔ (پ19 ، الفرقان : 64 ، 65)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

رضائے الٰہی کی طلب اور محبتِ الٰہی میں وارفتہ ہو کر صبح و شام محبوبِ حقیقی کی یاد اور اس سے مناجات میں رہنے والوں کے متعلق فرمایا : (وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗؕ-) ترجمہ : اور ان لوگوں کو دور نہ کرو جو صبح و شام اپنے رب کو اس کی رضا چاہتے ہوئے پکارتے ہیں۔ (پ7 ، الانعام : 52)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  نمازوں کی تاکید اور فجر کی نماز و تلاوت کے متعلق فرمایا : (اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِؕ-اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا(۷۸)) ترجمہ : نماز قائم رکھو سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور صبح کا قرآن ، بیشک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ (پ15 ، بنی اسرآءیل : 78)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

قیام اللیل اور صلوٰۃ اللیل کے متعلق فرمایا : ( یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ(۲) نِّصْفَهٗۤ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیْلًاۙ(۳) اَوْ زِدْ عَلَیْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْكَ قَوْلًا ثَقِیْلًا(۵) اِنَّ نَاشِئَةَ الَّیْلِ هِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّ اَقْوَمُ قِیْلًاؕ(۶)) ترجمہ : اے چادر اوڑھنے والے۔ رات کے تھوڑے سے حصے کے سوا قیام کرو۔ آدھی رات (قیام کرو) یا اس سے کچھ کم کرلو۔ یا اس پر کچھ اضافہ کرلو اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ بیشک عنقریب ہم تم پر ایک بھاری بات ڈالیں گے۔ بیشک رات کو قیام کرنا زیادہ موافقت کا سبب ہے اور بات خوب سیدھی نکلتی ہے۔ (پ29 ، المزمل : 1تا6)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے قیام اللیل کی اتباع میں صحابۂ کرام  رضی اللہُ عنہم اجمعین  کے شب و روز بھی ایسے ہی عبادت و ریاضت میں گزرتے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا٘-سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِؕ-) ترجمہ : تُو انہیں رکوع کرتے ہوئے ، سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا ، اللہ کا فضل و رضا چاہتے ہیں ، ان کی علامت ان کے چہروں میں سجدوں کے نشان سے ہے۔ (پ26 ، الفتح : 29)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)                                          (بقیہ اگلے ماہ کے شمارے  میں)     

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ ، دار الافتاء اہل سنت ، فیضان مدینہ  کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code