حقیقی کامیابی اور اس کے حصول کا طریقہ (قسط 02)

تفسیر قراٰن کریم

حقیقی کامیابی اور اُس کے حصول کا طریقہ(قسط : 02)

* مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ اگست2021ء

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا :

( قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) )

ترجمۂ کنزُالعرفان : بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے ، جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (پ18 ، المؤمنون : 1تا5)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر : اہل ایمان فلاح پانے والے ہیں جن کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ ہے کہ وہ خشوع و خضوع سے نماز ادا کرتے ہیں۔

خشوع کی دو قسمیں ہیں :

(1)ظاہری خشوع (2)باطنی خشوع

(1)ظاہری خشوع یہ ہے کہ دورانِ نماز نظرسجدے کی جگہ سے آگے نہ بڑھے ، آنکھ کے کنارے سے دائیں بائیں نہ دیکھے ، حتی کہ آسمان کی طرف بھی نظر نہ اٹھائے ، کوئی بےکار کام نہ کرے ، جیسے بدن کھجاتے رہنا یا انگلیاں چٹخانا وغیرہ ، بلکہ تمام اعضاء ساکن رہیں۔ اِس کے علاوہ بھی کثیر اُمور ظاہری خشوع میں داخل ہیں جو فِقْہ کی کتابوں میں نماز کی سنتوں ، آداب اور مکروہات کے عنوان سے بیان کئے جاتے ہیں۔

(2)باطنی خشوع کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان و عظمتپیشِ نظر ہو ، خدا کی بارگاہ میں حاضری کا تصور ہو ، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو ، صرف نماز میں دل لگا ہو۔

خشوع کے دینی اور دنیاوی اعتبار سے بے شمار فوائد ہیں۔

 دینی لحاظ سےیہ فائدہ ہے کہ نمازقائم کرنے کے حکم پر پوری طرح عمل ہوتا ہے ، روحانی برکتیں ملتی ہیں ، نماز قبول ہوتی ہے ، خُشوع والی نماز برائیوں سے روکتی ہے ، گناہوں کی معافی ، درجات کی بلندی اور معرفتِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے ، خشوع ، نمازی کو عابدین وصالحین کے گروہ میں داخل کردیتا ہے۔ ایسی نماز کی فضیلت کے متعلق نبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : جس مسلمان شخص پر فرض نماز کاوقت آ جائے اور وہ اس نماز کا وضو اچھی طرح کرے پھر نماز میں اچھی طرح خشوع اور رکوع کرے تو وہ نماز اس کے سابقہ گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے جب تک وہ کوئی کبیرہ گناہ نہ کرے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔

(مسلم ، ص116 ، حدیث : 543)

امت کی افضل ترین ہستیوں یعنی صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہ عنہم  کا اِس حوالے سے عمل ملاحظہ فرمائیں ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں : جب صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہ عنہم  نماز پڑھتے تو وہ اپنی نماز کی طرف متوجہ رہتے ، اپنی نظریں سجدہ کرنے کی جگہ پر رکھتے تھے اور انہیں یہ یقین ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں دیکھ رہا ہے اور وہ دائیں بائیں توجہ نہیں کرتے تھے۔ (در منثور ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : 2 ، 6 / 84)

اسی طرح ایک انصاری صحابی کا واقعہ تو معروف ہے کہ رات کے وقت لشکرِ اسلام کےلئے پہرہ دے رہے تھے اور جاگنے کی خاطر نماز پڑھنا شروع کر دی ، مشرک آیا اور فوراً تاڑ گیا کہ یہ محافظ اور نگہبان ہیں ، چنانچہ اُس نے تین تیر مارے اور تینوں تیر نماز میں مصروف انصاری صحابی  رضی اللہ عنہ  کے جسم میں پیوست ہوگئے لیکن وہ اُسی حالت میں رکوع اور سجدہ کرتے رہے۔ (ابو داؤد ، 1 / 99 ، حدیث : 198 ملخصاً)

خشوع کے دنیاوی فوائد!

(1)خشوع سے مراقبہ کافائدہ ملتا ہے ، جس پر دنیا میں بڑی ریسرچ (Research) ہو رہی ہے۔ (2)ذہنی انتشار اور دباؤ سے نجات ملتی ہے۔ (3)ذہنی سکون کا حصول ہوتا ہے۔ (4)اعصابی تناؤ کم ہوتا ہے۔ (5)پرسکون نیند آتی ہے۔ (6)ہارٹ بیٹ (Heart Beat) یعنی دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر (Blood Pressure) کنٹرول میں رہتا ہے۔ (7)طبیعت میں تازگی پیدا ہوتی ہے۔ (8)سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے کہ مسلسل کام اور ذہنی دباؤ سوچنے کی صلاحیت کو متأثر کرتے ہیں۔

( وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳))  ترجمہ : اور وہ جوفضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں۔   (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اِس آیتِ کریمہ میں موجود کلمۂ “ لَغْو “ کی تفسیر میں علامہ صَاوِی  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں کہ لغو سے مراد ہر ناپسندیدہ یا مباح قول و فعل ہے جس کا مسلمان کودنیا و آخرت میں کوئی فائدہ نہ ہو ، جیسے مذاق مسخری ، بیہودہ گفتگو ، کھیل کود ، فضول کاموں میں وقت ضائع کرنا ، شہوات پوری کرنے میں ہی لگے رہنا وغیرہا ، وہ تمام کام جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ (صاوی ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : 3 ، 4 / 1356) نبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : آدمی کے اسلام کی اچھائی میں سے یہ ہے کہ وہ لایعنی چیز چھوڑ دے۔ (ترمذی ، 4 / 142 ، حدیث : 2324)

فضولیات تین طرح کی ہوتی ہیں ، جن کا تعلق زبان ، عمل اور دل سے ہوتا ہے اور کامیاب صاحبِ ایمان ہر طرح کی فضولیات سےبچتا ہے۔

(1)زبان سے متعلقہ فضولیات!

آج کے زمانے میں زبان کی فضولیات بہت ہی بڑھ چکی ہیں۔ دن رات ، دنیا جہان کی باتیں ، سوئی سے لے کر ہاتھی تک اور گھر سے لے کر عالمی معاملات تک پر بے مقصد و بے فائدہ گفتگو لوگوں کی زبانوں پر جاری ہے ، اس طرح کی اکثر باتیں فضولیات ہی میں داخل ہیں۔ اِن فضولیات کو سب سے زیادہ بڑھاوا ، اخبار ، ٹی وی ، سوشل میڈیا اور ہر اینٹ کے نیچے سے برآمد ہونے والے تجزیہ نگاروں نے دیا ہے۔ فضولیات کی عادت پڑجائے تو زبان کی احتیاط ختم ہوجاتی ہے اور غیبت تو ایسوں کےلئے گویا معمولات ِ زندگی میں شامل ہوجاتی ہے ، حالانکہ غیبت کبیرہ گناہ ہےاور غیبت کرنے والے کی نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں ، نیز لوگوں کی نظر میں اس کی عزت بھی ختم ہوجاتی ہے ، کہ دوسروں کے سامنے اِن کی غیبت کرے گا۔ یونہی فضولیات کے عادی سے کوئی بعید نہیں کہ زبان کی معمولی سی جنبش سے اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے یا اپنے اعمال برباد کربیٹھے ، جیسا کہ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : بےشک ایک بندہ اپنی زبان سے ایک برا کلمہ نکالتا ہے اور وہ اس کی حقیقت نہیں جانتا تو اللہ پاک اس کی بناء پر اُس کے لئے قیامت تک اپنی ناراضگی لکھ دیتا ہے۔ (ترمذی ، 4 / 143 ، حدیث : 2326 ملخصاً)

صحیح مسلم میں ہے کہ نبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا کہ بندہ اللہ پاک کی ناخوشی کی بات بولتا ہے اور اس کی طرف دھیان نہیں دَھرتا ، یعنی اس کے ذہن میں یہ بات نہیں ہوتی کہ اللہ پاک اس سے اتنا ناراض ہوگا ، کہ اُس کلمہ کی وجہ سے بندہ جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو مشرق و مغرب کے فاصلہ سے بھی زیادہ ہے۔ (مسلم ، ص1219 ، حدیث : 7482)

بزرگانِ دین فضول اور بے مقصد گفتگو سے بہت اجتناب کرتے تھے ، چنانچہ حضرت حسان بن ابی سِنان  رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں مروی ہے کہ آپ ایک بالا خانے کے پاس سے گزرے تو ا س کے مالک سے دریافت فرمایا کہ یہ بالاخانہ بنائے تمہیں کتناعرصہ گزرا ہے؟یہ سوال کرنے کے بعد سخت ندامت ہوئی اور نفس کو مخاطب کرتے ہوئے یوں فرمایا : اے مغرور نفس! تو فضول اور لا یعنی سوالات میں قیمتی ترین وقت کو ضائع کرتا ہے؟ پھر ا س فضول سوال کے کفارے میں آپ نے ایک سال روزے رکھے۔ (منھاج العابدین ، ص65)

(2)عمل سے متعلقہ فضولیات!

(1)ٹی وی کے دنیاوی پروگرام دیکھنا (2)ایک خبر دس بار سننا (3)ایک موضوع پر کئی چینلز کے پروگرام سننا (4)سیاست پر لاحاصل گفتگو (5)میچز(Matches)دیکھنا (6)فیس بک ، ٹویٹر ، انٹرنیٹ سرفنگ (Internet Surfing) اور سوشل ایپز (Social Apps) کے استعمال میں طویل وقت گزارنا۔ آپ مُنصِفانہ انداز میں خود سے سوال کریں کہ کیا اِن تمام مصروفیات کاآپ کی زندگی سے تعلق ہے؟ اکثر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص چار گھنٹے روزانہ اِن “ لاحاصِل کاموں “ پر خرچ کرے تو سال کے 1460 گھنٹے ضائع کرے گا اور اگر اتنے گھنٹے خدا کی رضا یا دنیا کی کامیابی کےلئے لگائے تو کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے۔

اِنہی چار گھنٹوں کے اعداد وشمار کے اعتبار سے چند مثالیں ملاحظہ کریں۔ (1)اگر آپ ایک گھنٹے میں بیس رکعت نماز پڑھتے توچار گھنٹوں کے اعتبار سے ایک سال میں 29200 رکعتیں پڑھ لیتے۔ (2)اگر ایک گھنٹے میں ایک ہزارمرتبہ درود پڑھتے توچار گھنٹوں کے لحاظ سے سال بھر میں چودہ لاکھ ساٹھ ہزار مرتبہ (1,460,000) درود شریف پڑھ پاتے۔ (3)ایک گھنٹے میں شریعت کے دو مسئلے سیکھتے تو چار گھنٹے سیکھنے سے سال میں تین ہزار کے قریب شرعی مسائل سیکھ لیتے۔

یہ سارا حساب ایک سال میں چار گھنٹے کے لحاظ سے ہے اور اگر دس بیس تیس سال کا حساب لگائیں تو نتیجہ نکال لیں۔ الغرض یہ بات سمجھ لیجئے کہ وقت کو تین طرح سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ (1)فضول (2)کم فائدہ مند(3)زیادہ فائدہ مند۔ ہر ذی شعور یہ سمجھتا ہے کہ اِن تین طرح کے استعمال میں سے سب سے بہتر وہ استعمال ہے کہ جس کے ذریعے انسان زیادہ فوائد حاصل کر سکے۔

(3)دل کا بےکار اور فضول استعمال!

دل اور ذہن کا فضول استعمال یہ ہے کہ (1)خیالی پلاؤ پکاتے رہنا ، (2)دوسروں کی ترقی پر اپنا دل جلاتے رہنا اور ہر وقت اپنی ناکامیوں پر کُڑھنا ، (3)دل میں گناہ کے منصوبے تیار کرنا ، (4)صرف منصوبے بنانا اور کام کچھ نہ کرنا جیسے ایک شخص کھانا بنانے کے سو طریقے (Recipes) سیکھ لے اورکھانا ایک بھی نہ بنائے۔

دل اور ذہن کے فضول استعمال کے نقصانات!

(1)فضول سوچوں سے ذہن کی مفید اور مثبت سوچنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔ (2)فضول سوچوں کی وجہ سے بے ہمتی اور کام چوری کی عادت پڑجاتی ہے۔ (3)ذہنی صلاحیتیں پوری طرح استعمال نہیں ہو پائیں گی ، جس کے نتیجے میں منفی سوچ والا شخص اپنی کامیابی کی بجائے دوسروں کی ناکامی کا سوچتا رہے گا۔

الغرض دنیا و آخرت میں کامیاب وہی ہے جو فضولیات سے کنارہ کَشی کرکے مفید کاموں میں خود کو مصروف کرلے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (بقیہ تفصیلات تیسرے حصے میں)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگرانِ مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ، دار الافتاء اہلِ سنّت فیضانِ مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code