شانِ صدّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا)

ترجمہ: اگر تم اِس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے تو اللہ اِن کی مدد فرماچکا ہے جب کافروں نے اِنہیں (اِن کے وطن سے) نکال دیا تھا جبکہ یہ دو میں سے دوسرے تھے، جب دونوں غار میں تھے، جب یہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غم نہ کرو، بیشک اللہ  ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اُس پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے۔ (پ10، التوبہ:40) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر: یہ آیت نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مقام و مرتبہ اورمرکز و مَھْبَط ِ عنایاتِ الہٰیہ ہونے  پر دلالت کرتی ہے اور  اسی آیت سے صدیق ِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ کی عظمت و شان بھی  نمایاں  ہوتی ہے۔ ہجرت ِ مدینہ کے متعلق اِس آیت ِ مبارکہ کا   خلاصہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کو راہِ خدا میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مدد کی ترغیب دی ہے کہ اگر تم  اِن کی مدد نہ کرو گے تویہ تمہاری مدد کے محتاج نہیں ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اِن کی خاص مدد فرمائے گا جیسے اللہ تعالیٰ نے اِن کی اُس وقت بھی مدد فرمائی جب کفار نے انہیں مکۂ مکرمہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا اور یہ صرف ایک فرد یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ مکۂ مکرمہ سے نکل کر غارِ ثور میں آئے اور دوسری طرف کفار اِن کا تَعاقُب کرتے غار کے دھانے پر آپہنچے جس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ فکرمند ہوئے لیکن نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تائید ِ اِلہٰی پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے ساتھی سے فرمایا:غم نہ کرو، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے اور پھر واضح طور پر اِعانت ِ الہٰی کا ظہوراور بارگاہِ خداوندی سے سکون و اطمینان کا نزول ہوا، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے غیبی لشکروں نے مدد کی اور غار کے منہ پر موجود کفار غار کے اندر جھانکے بغیر ہی واپس لوٹ گئے۔

صدیقِ اکبر  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی فضیلت: اس آیتِ مبارکہ میں اَصلُ الاُصول تورسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عظمت و شان اور اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے شامل ِ حال ہونے کا بیان ہے لیکن اس کے ساتھ  کئی اعتبار سے حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عظمت و شان کا بیان بھی موجود ہے:

(1)نبیِّ مکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے  کفار کی طرف سے قتل کے اندیشے کے پیش ِ نظر ہجرت فرمائی تھی  لہٰذا اپنی جان کی حفاظت کےلئے اپنے انتہائی قابل ِ اعتماد ساتھی و غلام صدیق ِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ساتھ لیا جو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کےمخلص، باوفا، خیر خواہ،  کاملُ الایمان،  قابل ِ اعتماد اور سچے مُحِبّ و مددگار ہونے کی دلیل ہے کیونکہ خطرناک حالات میں آدمی اسی کو اپنے ساتھ رکھنا پسند کرتا ہے جس کے اِخلاص، وفا، ہمت و حوصلے اور جاں نثاری پر بھرپور اعتماد ہو۔

(2)انبیاء علیہمُ الصَّلٰوۃ السَّلام کی ہجرتیں خاص حکم ِ الہٰی سے ہوتی ہیں اور یہ ہجرت بھی اللہ تعالیٰ کی خاص اجازت سے تھی، اِس اجازت کے وقت رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت میں مخلص صحابۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنھم کی ایک پوری جماعت موجود تھی بلکہ ان کے کئی حضرات سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہکے مقابلے میں نَسَبی طور پر نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زیادہ قریب بھی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نےاُس موقع پراپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قرب و  صحبت میں رہنے کا شرف ِ عظیم سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے علاوہ کسی اورکو  عطا نہیں فرمایا، یہ تخصیص آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکے عظیم مرتبے اور بقیہ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنھم پر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت کی دلیل  ہے۔

(3)دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنھم حالات کی ناسازی کی وجہ سے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی اجازت سے ہجرت کر گئے لیکن یارِ غار، صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اُن نامُساعِد حالات  کے باوجود بھی پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا قرب نہ چھوڑا بلکہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت و حفاظت کےلئے   مکۂ مکرمہ میں موجود رہے۔

(4)سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جس قدر رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فیض حاصل کیا وہ کسی اور صحابی کو نصیب نہ ہوا کیونکہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آقا کریمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ سفر و حضر میں دیگر تمام صحابۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنھمکے مقابلے میں زیادہ وقت گزارا اور خصوصا ًسفر ِ ہجرت کے قرب و صحبت کی تو کوئی برابری  کرہی نہیں سکتا کہ ایامِ ہجرت میں بلا شرکت ِ غیرے قرب و فیضانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے تن ِ تنہا فیض یاب ہوتے رہے۔ اسی لئے عمر فاروق ِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسی ہستی نے تمنا کی تھی  کہ کاش ! میرے سارے اعمال ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہکے  ایک دن اور  ایک رات کے عمل کے برابر ہوتے۔ ان کی رات تو وہ  جس میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ غار ِ ثور تک پہنچے، آقا کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے غار میں جاکر سوراخوں کو اپنی چادر پھاڑ کر بند کیا، دو سوراخ باقی رہ گئے تو وہاں اپنے پاؤں رکھ دئیے، وہاں سے سانپ نے ڈس لیا تب بھی نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے آرام کی خاطر پاؤں نہ ہٹایا اور ( کاش کے میرے اعمال کے مقابلے میں مجھے صدیق ِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک دن مل جائے ) ان کاوہ  دن جب رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصال کے بعد عرب کے چند قبیلے مرتد ہوگئے اورکئی قبیلوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تواُن نازک وکمزور حالات میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے دین ِ اسلام کو غالب کرکے دکھایا۔ (یہ فرمانِ عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کا معنوی خلاصہ ہے۔) (خازن،ج2،ص244)

(5)آپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے غارِ ثور میںرسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی راحت و آرام پر اپنی جان قربان کرنے سے دریغ نہ کیا۔

(6)اسی سفرِ ہجرت کی وجہ سے آپ کا لقب ثانی اثنین ہے یعنی ’’دو میں سے دوسرے‘‘ پہلےرسول ِ خدا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور دوسرے صدیق ِ باوفا رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ ہجرت کے علاوہ بھی رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی ثانی ہیں حتی کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے پہلو میں تدفین میں بھی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی ثانی ہیں۔

(7)آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ساتھی ہونا  خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرمایا، یہ شرف آپ کے علاوہ اور کسی صحابی کو عطا نہ ہوا۔

(8)آیت ہی بتا رہی ہے کہاللہ تعالیٰ ان دونوں مقدس ہستیوں کے ساتھ تھا۔

(9)اللہ تعالیٰ کا خصوصیت کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ پر سکینہ نازل فرمانا بھی ان کی فضیلت کی دلیل ہے۔ (تفسیر کبیر،ج6،ص150، خازن،ج2،ص244 ملتقطاً)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مفتی محمد قاسم عطاری 

٭…دارالافتاءاہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Gallery

Comments


Security Code