صبر

(وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(۱۵۴)وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵)) اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔ اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔(پ2، البقرۃ:155،154)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس سے پچھلی آیت میں فرمایا گیا ہے:اے ایمان والو!صبر اور نماز سے مدد مانگو، بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔(پ2، البقرۃ: 153)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس آیت سے صبر کرنے والوں کی ایک عظیم قسم یعنی شہید کے متعلق بیان ہے۔ آدمی شہید ہو کر دنیاوی نعمتوں سے محروم ہوجاتا ہے جو ظاہراً ایک افسوس ناک چیز ہے لیکن فرمایا گیا کہ شہید تو فانی زندگی اللہ تعالٰی کی راہ میں قربان کرکے دائمی زندگی حاصل کرلیتا ہے لہٰذا افسوس کس بات کا؟ یہ بات تو قطعی ہے کہ شہداء زندہ ہیں لیکن ان کی حیات کیسی ہے اس کا ہمیں شعور نہیں اسی لئے ان پر شرعی احکام عام میت کی طرح ہی جاری ہوتے ہیں جیسے قبر، دفن، تقسیم میراث، ان کی بیویوں کا عدت گزارنا، عدت کے بعد کسی دوسرے سے نکاح کرسکنا وغیرہ۔

اس آیت میں شہید کو زبان سے مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے، جبکہ دوسری جگہ انہیں دل میں مردہ سمجھنے سے بھی منع کردیا گیا چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:( وَ  لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  قُتِلُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَمْوَاتًاؕ-بَلْ  اَحْیَآءٌ  عِنْدَ  رَبِّهِمْ  یُرْزَقُوْنَۙ(۱۶۹))اور جو اللہ  کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔(پ4، آل عمرٰن:169)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

موت کے بعد اللہ تعالٰی شہیدوں کو زندگی عطا فرماتا ہے، ان کی روحوں پر رزق پیش کیا جاتا ہے، انہیں راحتیں دی جاتی ہیں، ان کے عمل جاری رہتے ہیں، ان کا اجر و ثواب بڑھتا رہتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔(شعب الایمان،ج7،ص115، رقم:9686)

نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اہلِ جنّت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہ تعالٰی اس سے فرمائے گا:اے ابنِ آدم!تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا۔ وہ عرض کرے گا:اے میرے رب عَزَّوَجَلَّ!بہت اچھی منزل ہے۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا”تو مانگ اور کوئی تمنا کر۔“ وہ عرض کرے گا:میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں۔ (وہ یہ سوال اس لئے کرے گا) کہ اس نے شہادت کی فضیلت مُلاحظہ کر لی ہوگی۔(سنن نسائی،ج 3،ص343، حدیث:3160)

آیت نمبر 155میں فرمایا کہ ”اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔“(پ2، البقرۃ:155)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)آزمائش سے فرمانبردار اور نافرمان کے حال کا ظاہر کرنا مراد ہے۔ امام شافعی رحمۃُ اللہِ تعالٰی علیہ کے بقول خوف سے اللہ  تعالٰی کا ڈر، بھوک سے رمضان کے روزے، مالوں کی کمی سے زکوٰۃ و صدقات دینا، جانوں کی کمی سے امراض کے ذریعہ اموات ہونا، پھلوں کی کمی سے اولاد کی موت مراد ہے کیونکہ اولاد دل کا پھل ہوتی ہے۔

آزمائشیں اور صبر زندگی میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں، اللہ  تعالٰی اپنے بندوں کو کبھی مرض سے، کبھی جان و مال کی کمی سے، کبھی دشمن کے ڈر خوف سے، کبھی کسی نقصان سے، کبھی آفات و بَلیات سے اور کبھی نت نئے فتنوں سے آزماتا ہے اور دینِ اسلام پر عمل کرنا اور اس کی دعوت دینا تو خصوصاً وہ راستہ ہے جس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں، اسی سے فرمانبردار و نافرمان، محبت میں سچے اور محبت کے صرف دعوے کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنی قوم سے تکالیف اٹھانا، ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آگ میں ڈالا جانا، فرزند قربان کرنا، ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بیماری میں مبتلا کیا جانا، ان کے مال و اولاد ختم کر دیا جانا وغیرہا یہ سب آزمائشوں پرصبر ہی کی مثالیں ہیں جن میں ہمارے لئے یہ درس ہے کہ جب بھی کوئی مصیبت یا تکلیف آئے تو بے صبری نہ کریں بلکہ صبر کریں اور اللہ تعالٰی کی رضا پر راضی رہیں۔ تکالیف میں صبر پر بہت ثواب ہے رسولِ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”مسلمان کو جو تکلیف، رنج، ملال اور اذیت و غم پہنچے، یہاں تک کہ اس کے پیر میں کوئی کانٹا ہی چبھے تو اللہ تعالٰی ان کے سبب اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔“(بخاری،ج4،ص3، حدیث:5641)

مصیبت پر صبر کی صلاحیت حاصل کرنے کے طریقے

صبر کی صلاحیت پانے کے طریقے یہ ہیں:(1)تکلیف کے وقت فوراً اللہ  تعالٰی  کی طرف رجوع کریں جیسے قرآن مجید میں فرمایا کہ مصیبت پہنچنے پر صابرین کہتے ہیں:ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔(پ2، البقرۃ:156)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) بارگاہِ الٰہی کی طرف رجوع کرنے سے ہمت و حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور مصیبت کم نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ (2)آدمی صبر کے ثواب پر نظر رکھے جیسے صابرین کی فضیلت میں فرمایا:”یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے بخششیں اور رحمت ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔“(پ2، البقرۃ:157)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)نیز فرمایا: صبر کرنے والوں کو بےحساب اجر دیا جائے گا۔ (پ23، الزمر:10)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)(3)صابرین کی سیرت پڑھے جیسے”حضرت فتح موصلی رحمۃُ اللہِ تعالٰی علیہ کی زوجہ پھسل گئیں تو ان کا ناخن ٹوٹ گیا، اس پر وہ ہنس پڑیں، ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو درد نہیں ہورہا؟ انہوں نے فرمایا:”اس کے ثواب کی لذّت نے میرے دل سے درد کی تلخی کو زائل کر دیا ہے۔“(احیاء العلوم،ج 4،ص172) (4)مصیبت آتے ساتھ ہی صبر کی طرف ذہن لے جائے کہ ”صبر صدمہ کی ابتداء میں ہوتا ہے۔“(بخاری،ج 1،ص433، حدیث:1283) (5)جو چیزیں اپنے اختیار میں ہیں انہیں استعمال میں لائے مثلاً زبان سے دعا کرے، کلماتِ حمد ادا کرے کہ بےصبری کے انداز سے بچے، جیسے زبان سے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں شکوہ و شکایت کے کلمات بولنا، سینہ پیٹنا اورگریبان چاک کرلینا وغیرہ۔ صبر کی بہترین صورت یہ ہے کہ مصیبت زدہ پر مصیبت کے آثار ظاہر نہ ہوں یہ صبرِ جمیل ہے۔

سیّدنا امامِ حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی شان و عظمت اس لئے بھی انتہائی بلند ہے کہ میدانِ کربلا میں آپ پر جان، مال، اولاد، بھوک، پیاس، خوف وغیرہا سب آزمائشیں اکٹھی آئیں اور آپ تمام آزمائشوں میں سرخ رُو ہوئے اور رضائے الٰہی پر راضی رہے، زبان سے حمدِ الٰہی بجالاتے رہے اور اتنی تکالیف میں ایک لفظ بھی بےصبری کا ادا نہ کیا حتی کہ سجدے کی حالت میں اپنی جان کا نذرانہ بارگاہِ خداوندی میں پیش کردیا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مفتی محمد قاسم عطاری 

٭…دارالافتاءاہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code