مومن تو یہ ہیں

( اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَؕ(۳) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴))

ترجمہ:ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کو یاد کیا جائے توان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں وہ جو نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ یہی سچے مسلمان ہیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات اور مغفرت اور عزت والا رزق ہے۔(پ9،الانفال:2، 3، 4)(ان آیتوں کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ان آیات میں اللہ  تعالیٰ نے کامل ایمان والوں کی تین قلبی و باطنی خوبیاں اور دو جسمانی و مالی اَعمالِ صالحہ بیان فرمائے ہیں، پھر ان بندگانِ خدا کو سچے مؤمنین قرار دیا اور ان کیلئے تین انعامات کی بشارت سنائی، ایک بارگاہِ خداوَندی میں درجات عالیہ، دوسری مغفرتِ الٰہی کی نوید اورتیسری عِزت و اِکرام والی روزی کی بشارت عطا فرمائی ہے۔ بعض مفسرین کے کلام میں ان اعمال و بشارات میں ایک خوبصورت ربط کی طرف بھی اشارہ ہے کہ تین باطنی اَوصاف یعنی ٭یادِ الٰہی کے وقت خوفِ خدا ٭تلاوتِ قراٰن سے قوّتِ ایمان میں اضافہ اور ٭توکُّل عَلٰی  اللہ  کے بدلے میں خدا کی بارگاہ میں قُرب کے درجات ملیں گے۔ نماز سے مغفرت نصیب ہوگی کہ نماز گناہوں کی مُعافی کا سبب ہے اور راہِ خدا میں خرچ کرنے کے بدلے جنَّت میں عزّت کا رزْق نصیب ہوگا۔

کامل ایمان والوں کے تین قلبی و باطنی اوصاف

ان آیات میں سچے مومنوں کا پہلا وصف یہ بیان ہوا کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کویاد کیا جائے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں۔ اللہ  تعالیٰ کا خوف دو طرح کا ہوتا ہے:(1)اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا (2)اللہ  عَزَّوَجَلَّ کے جلال، اس کی عظمت اور اس کی بے نیازی سے ڈرنا۔ پہلی قسم کا خوف عام مسلمانوں اور عام پرہیز گاروں کو ہوتا ہے اور دوسری قسم کا خوف انبیاء و مرسلین، اولیائے کاملین اور مقرب فرشتوں کو ہوتا ہے اور جس کا اللہ تعالیٰ سے جتنا زیادہ قرب ہوتاہے اسے اتنا ہی زیادہ خوف ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں تم سب سے زیادہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مَعْرِفت (پہچان) رکھنے والا ہوں۔(بخاری،ج1،ص18، حدیث:20)

خوفِ خدا بہت عظیم دولت ہے۔ سیِّدِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس مؤمن بندے کی آنکھ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف سے آنسو نکلے، خواہ وہ مچھر کے سر جتنا ہو، پھر وہ آنسو رُخسار کے سامنے کے حصے کو مَس کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دیتا ہے۔(ابن ماجہ،ج 4،ص467، حدیث:4197)

مُقرَّبین کے عظمتِ الٰہی کے سبب خوفِ خدا کی کیفیت کیلئے یہ روایات بھی ملاحظہ ہوں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ درخت پر پرندے کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اے پرندے! تیرے لئے کتنی بھلائی ہے کہ تو پھل کھاتا اور درخت پر بیٹھتا ہے۔ کاش! میں بھی ایک پھل ہوتا جسے پرندے کھا لیتے۔ (الزھد لابن مبارک، ص81، رقم:240) اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ  عنہ نے ایک مرتبہ زمین سے ایک تنکا اٹھا کر فرمایا:کاش! میں ایک تنکا ہوتا۔ کاش! میں کچھ بھی نہ ہوتا۔ کاش! میں پیدا نہ ہوا ہوتا۔ کاش! میں بھولا بسرا ہوتا۔(الزھد لابن مبارک، ص79، رقم:234)

سچےّ مؤمنوں کا دوسرا وصف یہ بیان ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیات سن کر اُن کی ایمانی قوَّت و نورانیَّت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ قراٰن کلامِ خدا، مَنْبعِ انوار، معدنِ رُوحانیّت، سرچشمہِ کمالات ہے۔ اس لئے جن کے دلوں کے دروازے بند نہیں بلکہ کھلے ہیں نورِ قراٰن ان میں داخل ہوکر روشنی بکھیر دیتا ہے اور جن کی دلوں کی زمین بنجر نہیں وہاں انوارِ قراٰنی کی برسات سے ایمان کے پھول لہلہانے لگتے اور باطن کی دنیا مہک اٹھتی ہے۔ اسی لئے اولیاء و صُلحاء و علماء کی صحبت میں بیٹھنے سے دل کی حالتیں بدلتی ہیں۔ یہاں ایمان میں زیادتی سے ایمان کی مقدار میں زیادتی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے۔

سچے مومنوں کا تیسرا وصف یہ بیان ہو اکہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے تمام کام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سِپرد کر دیتے ہیں، اس کے علاوہ کسی سے امید رکھتے ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔

توکُّل کا حقیقی معنیٰ اور توکُّل کی فضیلت امام فخرُ الدّین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:توکُّل کا یہ معنیٰ نہیں کہ انسان اپنے آپ کو اور اپنی کوششوں کو بے کار چھوڑ دے جیساکہ بعض جاہل کہتے ہیں بلکہ توکُّل یہ ہے کہ انسان ظاہری اسباب کو اختیار کرے لیکن دل سے ان اسباب پر بھروسہ نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ کی نُصْرت، اس کی تائید اور اس کی حمایت پر بھروسہ کرے۔(تفسیرِکبیر، پ4، اٰل عمرٰن، تحت الآیۃ:159،ج 3،ص410) یہی بات ایک حدیث میں بھی سمجھائی گئی ہے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص نے عرض کی: یَارسولَ  اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!میں اپنا اونٹ باندھ کر توکُّل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر؟ ارشاد فرمایا: تم اسے باندھو پھر توکُّل کرو۔ (ترمذی،ج 4،ص232، حدیث:2525) توکُّل کی فضیلت پر رسولُ اللہ صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:میری امّت میں سے ستر ہزارلوگ بغیر حساب جنّت میں جائیں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو منتر جنتر نہیں کرتے، فال کے لیے چڑیا نہیں اڑاتے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر بھروسہ کرتے ہیں۔(بخاری،ج4،ص240،حدیث:6472)

اوپر بیان کردہ تینوں اوصاف (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر کے وقت ڈر جانا،تلاوتِ قراٰن کے وقت ایمان زیادہ ہونا اور اللہ  تعالیٰ پر توکُّل کرنا) کا تعلق قلبی اعمال سے تھا، اس کے بعد سچے مومنوں کے دوظاہری اعمال بیان فرمائے: پہلا وصف یہ بتایا کہ ”وہ نماز قائم رکھتے ہیں“ اس سے مرادہے کہ فرض نمازوں کو ان کی تمام شرائط و ارکان کے ساتھ اُن کے اوقات میں ادا کرنا۔ دوسرا وصف یہ بیان فرمایا کہ ”راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں“ یعنی وہ اپنے مال اس جگہ خرچ کرتے ہیں جہاں خرچ کرنے کا اللہ  تعالیٰ نے حکم دیا ہے، اس میں زکوٰۃ، حج، جہاد میں خرچ کرنا اور نیک کاموں میں خرچ کرنا سب داخل ہے۔(خازن، پ9، الانفال، تحت الآیۃ:3،ج 2،ص177)

ان تمام اوصاف کے ذکر کے بعد ان حضرات کو سچے مسلمان کا لقب اس لئے عطا ہو اکہ ان کا ظاہر و باطن دونوں ہی ان کے ایمان کی دلیل ہے کہ ان کے دل خشیتِ الٰہی، اخلاص اور توکل جیسی صفاتِ عالیہ سے متصف ہیں اور ان کے ظاہری اعضاء بھی رکوع و سجود اور راہ خدا میں مال خرچ کرنے میں مصروف ہیں۔

اِن پانچ خوبیوں سے متصف مؤمنین کے لئے تین جزائیں بیان کی گئی ہیں:

٭پہلی جزا کہ ان کیلئے ان کے رب کے پاس درجات ہیں۔ یعنی جنت میں ان کے لئے مراتب ہیں اور ان میں سے بعض بعض سے اعلیٰ ہیں کیونکہ مذکورہ بالا اوصاف کو اپنانے میں مؤمنین کے احوال میں فرق ہے اسی لئے جنت میں ان کے مراتب میں بھی فرق ہے۔ جنتی درجات کے متعلق رسولُ اللہ  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اہلِ جنت بالا خانوں میں رہنے والوں کو اپنے اوپر اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم مشرق و مغرب میں افق پر صبح کے وقت باقی رہ جانے والے چمکدار ستارے دیکھتے ہو۔ یہ ان کے درمیان درجات کے فرق کی وجہ سے ہوگا۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! یہ انبیاء کے گھر ہوں گے جن تک ان کے علاوہ کسی کی رسائی نہیں ہوگی؟ آپ نے فرمایا: نہیں! اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! (ان بالا خانوں میں) وہ آدمی (رہیں گے) جو اللہ پر ایمان لائے اور انھوں نے رسولوں کی تصدیق کی۔(بخاری،ج 2،ص393،حدیث3256)

٭سچے مؤمنوں کی دوسری جزا کہ ان کے لئے مغفرت ہے۔ یعنی ان کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔

٭ اور تیسری جزا کہ ان کیلئے عزت والا رزق ہے، یعنی وہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے جنت میں تیار فرمایا ہے۔ اسے عزت والا اس لئے فرمایا گیا کہ انہیں یہ رزق ہمیشہ تعظیم و اکرام کے ساتھ اور محنت و مشقت کئے بغیرپیش کیا جائے گا۔(خازن، پ9، الانفال، تحت الآیۃ:4،ج 2،ص178)

اے رب کریم! ہمارے دلوں کو اپنے خوف، قوتِ ایمانی اور توکل کے زیور سے آراستہ فرما اور ہمیں نماز کا پابند اور تیری راہ میں خرچ کرنے والا بنا اور اپنے فضل و کرم سے ہمیں جنتِ فردوس کے اعلیٰ درجات، بے حساب بخشش اور عزت کی روزی سے مشرف فرما۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مفتی محمد قاسم عطاری 

٭…دارالافتاءاہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی


Share

مومن تو یہ ہیں

شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ذُوالقعدۃ الحرام اور ذُوالحجۃ الحرام1440ھ میں ان مَدَنی رسائل کے پڑھنے/سُننے کی ترغیب دلائی اور پڑھنے/سُننےوالوں کو دُعاؤں سے نوازا: (1)یااللہ پاک! جو کوئی رِسالہ ”گرمی سے حفاظت کے مدنی پھول“کے 18 صفحات پڑھ یا سُن لے اُس کو قبر و حشر کی گرمی سے بچا۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔کارکردگی:تقریباً8 لاکھ 153اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں نے اس رِسالے کا مطالعہ کیا(اسلامی بھائی:4لاکھ17ہزار250/اسلامی بہنیں:3لاکھ82ہزار903)۔(2)یا ربَّ المصطَفےٰ! جو کوئی رِسالہ ”دِل جیتنے کا نسخہ“کے41صفحات پڑھ یا سُن لے اُسے اَخلاقِ مصطَفےٰ سے حصّہ عطا فرما اور اس کو بے حساب بخش دے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔ کارکردگی:تقریباً6لاکھ65ہزار622اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں نے اس رِسالے کا مطالعہ کیا (اسلامی بھائی: 3لاکھ 16ہزار58/اسلامی بہنیں:3لاکھ49ہزار564)۔(3)یا ربِّ کریم! جوکوئی ”ابلق گھوڑے سوار“کے46صفحات پڑھ یا سُن لے اُس کو خُوش دِلی کے ساتھ ایسی قُربانی کرنے کی سعادت عنایت فرما جو مقبول ہوکر اُسے پُلصِراط سے پار لگا دے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔ کارکردگی:تقریباً9لاکھ40ہزار434اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں نے اس رِسالے کا مطالعہ کیا(اسلامی بھائی:5لاکھ 52ہزار484/اسلامی بہنیں:3لاکھ87ہزار950)۔(4)یاربَّ الْمصطَفٰے!جو کوئی رِسالہ ”بیٹا ہو تو ایسا!“کے44صفحات پڑھ یا سُن لے تندرُست اور فرماں بردار اولاد اُس کا مقدّر بنا۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔کارکردگی:تقریباً9لاکھ51ہزار981اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں نے اس رِسالے کا مطالعہ کیا(اسلامی بھائی:5لاکھ45ہزار744/اسلامی بہنیں:4لاکھ6ہزار237)۔


Share

Articles

Comments


Security Code