عاشقوں کی عبادت

ارشادِباری تعالیٰ ہے: ( وَ  لِلّٰهِ  عَلَى  النَّاسِ   حِجُّ  الْبَیْتِ  مَنِ  اسْتَطَاعَ  اِلَیْهِ  سَبِیْلًاؕ- ) ترجمہ:اوراللہ  کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔(پ4،اٰل عمرٰن،97)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر:اس آیت میں حج کی فرضیت اور  استطاعت کی شرط  کا بیان ہے۔ حدیث میں استطاعت کی تشریح ”زادِراہ“ اور ”سواری“  سے فرمائی ہے۔ ( ترمذی،ج5،ص6،حدیث:3009)حج کا لغوی و شرعی معنی: حج کا لغوی معنی ہے کسی عظیم چیز کا قصد کرنا اور شرعی معنی یہ ہے کہ 9 ذوالحجہ کو زوالِ آفتاب سے لے کر10 ذوالحجہ کی فجر تک حج کی نیّت سے احرام باندھے ہوئے میدانِ عرفات میں وقوف کرنا اور 10 ذوالحجہ سے آخر عمر تک کسی بھی وقت کعبہ کا طواف زیارت کرنا حج ہے۔(در مختار،مع رد المحتار 515ج3،ص 516ملخصاً) فرضیت حج کی شرائط: عاقل، بالغ، آزاد، تندرست مسلمان پر حج فرض ہے جس کے پاس سفر ِ حج اور پیچھے اپنے اہل و عیال کے اخراجات موجود ہوں ۔ سواری یا اس کا خرچہ ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ شرائط جب حج کے مہینوں  میں پائی جائیں تو حج فِی نَفْسِہٖ فرض ہوجاتاہےپھر کچھ شرائط ادائیگی فرض ہونے کی ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے خود ہی جانافرض ہوتا ہے ۔ حج کے کثیر فضائل ہیں: (1)حج سابقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔(مسلم،ص 70،حدیث:321) (2)حج اور عمرہ کرو کیونکہ یہ فقر اور گناہو ں کو اس طرح مٹاتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، چاندی اور سونے کے زنگ کو مٹاتی ہے اور حج مبرور کی جزا صرف جنت ہے۔ (ترمذی،ج2،ص218،حدیث:810) حج ِ فرض کے ترک پر سخت وعید ہے جیسا کہ حدیث  پاک میں فرمایا گیا ’’جو شخص زادِراہ اور سواری کامالک ہو جس کے ذریعے وہ   بیتُ اللہ  تک پہنچ سکے ا س کے باوجود وہ حج نہ کرے  تو اس پر کوئی افسوس نہیں خواہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر۔(ترمذی،ج2،ص219،حدیث:812)

حج ایک منفرد عبادت ہے ، اس میں بہت سی حکمتیں ہیں اسے ”عاشقوں کی عبادتبھی کہا جاسکتا ہےکہ حج کا لباس یعنی احرام او ردیگر معمولات جیسے طوافِ کعبہ ، منٰی کا قیام اور عرفات و  مزدلفہ میں ٹھہرنا سب عشق و محبت کے انداز ہیں جیسے عاشق اپنے محبوب کی محبت میں ڈوب کر  اپنے لباس، رہن سہن سے بے پرواہ ہوجاتا ہے اور بعض اوقات ویرانوں میں نکل جاتا ہے ایسے ہی خدا کے عاشق ایام ِ حج میں اپنے معمول کےلباس اور رہن سہن چھوڑ کر محبت ِ الٰہی میں گُم ہو کر عاشقانہ وضع اختیار کرلیتے ہیں ، طواف کی صورت میں محبوبِ حقیقی کے گھر کے چکر لگاتے ہیں اور مِنٰی و عرفات کے ویرانوں میں نکل جاتے ہیں، نیز حج بارگاہِ خداوندی میں پیشی کے تصور کو بھی اُجاگر کرتا ہے کہ جیسے امیر و غریب، چھوٹا بڑا، شاہ و گدا سب بروزِ قیامت اپنی   دنیوی پہچانوں کو چھوڑ کرعاجز انہ بارگاہِ الٰہی میں پیش  ہوں گے ایسے ہی حج کے دن سب اپنے دنیوی تعارف اور شان و شوکت کو چھوڑ کر عاجزانہ حال میں میدانِ عرفات میں بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوجاتے ہیں۔یہاں وہ منظر اپنے عروج پر ہوتا ہے کہ

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

سفر ِ حج سفرِ آخرت کی یاد بھی دلاتا ہے کہ جیسے آدمی موت کے بعد اپنے دنیوی ٹھاٹھ باٹھ چھوڑ کر صرف کفن پہنے آخرت کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے ایسےہی حاجی اپنے رنگ برنگے، عمدہ اور مہنگے لباس  اتار کر کفن سے ملتا جلتا دوسادہ سی چادروں پر مشتمل  لباس پہن کربارگاہِ خداوندی میں حاضری کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے۔ 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مفتی محمد قاسم عطاری 

٭…دارالافتاءاہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Gallery

Comments


Security Code