اُمّتِ محمدیہ کی کثرت

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

امت محمدیہ کی کثرت ( قسط:26 )

*مولانا ابوالنور راشد علی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون2023

گذشتہ سے پیوستہ

 ( 50 ) اَنَا اَكْثَرُ الْاَنْبِيَاءِ تَبَعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ترجمہ: قیامت کے دن میں ہی تمام نبیوں سے زیادہ متّبعین  ( امّت والا )  ہوں گا۔)[1](

رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان میں آپ کی عظمت و شان کا پہلو پیروکاروں کی کثرت کے ضمن میں بیان ہوا ہے۔ کسی کے حلقہ احباب اور فرمانبرداروں کا زیادہ ہونا بھی ایک طرح کی فضیلت ہوتی ہے۔ اللہ کریم نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ اعزاز بھی عطا فرمایا کہ تمام انبیاء سے زیادہ آپ کی امّت ہوگی۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امّت کی کثرت کا ذکر کثیر احادیثِ مبارکہ سے ملتا ہے لیکن ان سب کو یہاں ایک مضمون میں سمونا ممکن نہیں ، البتہ چند احادیث مع شرح ملاحظہ کیجئے:

ہر نبی کا حوض ہے حضرت سَمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہر نبی کا حوض ہے اور وہ حضرات اِس پر فخر کریں گے کہ ان میں سے کس کے پاس زیادہ آنے والے ہیں اور ”اِنِّي اَرْجُو اَنْ اَكُونَ اَكْثَرَهُمْ وَارِدَةًمیں امید کرتا ہوں کہ سب سے زیادہ میرے حوض پر ہی آئیں گے۔)[2](

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہر نبی کا حوض علیحدہ ہوگا مگر ہمارے حضور کا حوض جس کا نام کوثر ہے ان سب سے بڑا ، سب سے خوبصورت اور سب سے لذیذ ہوگا۔ اُمّت کی زیادتی نبی کے لئے ، شاگردوں کی زیادتی استاد کے لئے ، مریدین کی زیادتی شیخ کے لئے ، رعایا کی کثرت بادشاہ کے لئے باعث فخر ہوتی ہے۔ حدیثِ پاک کے لفظ ”اَرْجُو“ کے بارے میں فرماتے ہیں: خیال رہے کہ ایسے موقعہ پر لَعَلَّ اور رجاء)[3](شک کے لئے نہیں بلکہ یقین کے لئے ہوتا ہے جیسے قرآن مجید میں بہت جگہ لَعَلَّ فرمایا گیا ہے۔)[4](

حوضِ کوثر پر آنے والوں کی کثرت کثرتِ امّت کا اندازہ ان لوگوں سے ہوتاہے جو حوضِ کوثر پر حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس حاضر ہوں گے چنانچہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک مقام پر ٹھہرے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مَا اَنْتُمْ جُزْءٌ مِنْ مِائَةِ اَلْفِ جُزْءٍ مِمَّنْ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ یعنی تم اُن لوگوں کا لاکھواں حصہ بھی نہیں ہو جو میرے پاس حوض پر پہنچیں گے۔ راوی نے حضرت زید بن ارقم سے پوچھا کہ آپ لوگ کتنے تھے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ ہم اس دن 700یا800 تھے۔)[5](

حکیمُ الاُمّت مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں کہ اس سے حضور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی ساری امت مراد ہے کہ اِنْ شآءَاللہ ہر اُمّتی حوض کوثر پر حاضر ہوگا وہاں کا پانی پئے گا ، کیوں نہ پئے کہ وہ اس کے نبی کا حوض ہے  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ۔  ( اورتعداد کی )  یہ  ( مثال )  فقط سمجھانے کے لئے ہے ورنہ حضور کی امت تو اربوں کھربوں کی تعداد میں ہے۔ آج مسلمان دنیا میں قریبًا ایک ارب ہیں پھر تاقیامت کتنے ہوں گے ہم اندازہ نہیں کرسکتے۔)[6](

مفتی صاحب نے یہ تعداد اپنی حیات میں ( 1971ء سے قبل )  لکھی جبکہ ویکی پیڈیا کے مطابق 2020ء میں مسلمانوں کی دنیا بھر میں تعداد ایک ارب 90کروڑ ہے۔

70ہزار کا بِلاحساب داخلۂ جنّت حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت کے کثیر اہلِ جنّت ہونے پر حضرت عُتبہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی دلیل اور بہت پُرلطف ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ میری اُمّت کے 70ہزار افراد کو بلاحساب داخلِ جنّت فرمائے گا اور ان میں سے ہر ہزار کے ساتھ 70ہزار مزید بھی داخلِ جنّت فرمائے گا پھر اپنے دستِ قدرت سے تین لپ۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ فرمان سُن کر جنابِ فاروقِ اعظم نے نعرۂ تکبیر بلند فرمایا ، پیارے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مزید فرمایا: اللہ کریم پہلے 70ہزار کی ان کے والدین او ر اہلِ خانہ کے حق میں شفاعت قبول فرمائے گا۔)[7](

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عربی زبان میں لفظ سَبْعِیْنَ اَلْفًا زیادتی بیان کرنے کے لئے آتا ہے وہ ہی مراد ہے۔لَاحساب کے معنی ہیں کہ ان سے مطلقًا حساب نہ ہوگا ، نہ حساب یَسِیر نہ حساب مُناقَشہ ، مگر مرقات نے فرمایا کہ یہاں حساب مُناقَشہ کی نَفی ہے پیشی والا حساب تو ہوگا مگر قوی یہ ہی ہے کہ مطلقًا حساب نہ ہوگا اور جب حساب ہی نہ ہوا تو عذاب کا سوال ہی نہیں۔حساب سے مراد حساب قیامت ہے اور ہوسکتا ہے کہ حساب قیامت اور حساب قبر دونوں مراد ہوں ، نہ حساب قبر سب کے لئے ہے نہ عذاب محشر سب کے لئے ، بعض حضرات ان حسابوں سے علیحدہ ہیں۔ پہلے ستر ہزار تو وہ تھے جو اپنے نیک اعمال کی وجہ سے بے حساب جنتی ہوئے اور دوسرےستر ہزار وہ ہیں جو ان پہلوں کے طفیل ان کی خدمت ان کے قرب کی وجہ سے بےحساب جنت میں گئے۔گلدستہ میں پھولوں کے ساتھ گھاس بندھ جاتی ہے تو وہ بھی عزت پاجاتی ہے یعنی ان میں سے ہر ایک کے ساتھ بے شمار لوگ ہوں گے جو ان کے طفیل بخشے جائیں گے۔

مزید فرماتے ہیں کہ لپ سے مراد ہے بے اندازہ کیونکہ جب کسی کو بغیر گنے بغیر تولے ناپے دینا ہوتا ہے تو وہاں لپ بھر بھر کر دیتے ہیں یا کہو کہ یہ حدیث متشابہات میں سے ہے ورنہ رب تعالیٰ مٹھی اور لپ سے پاک ہے۔)[8](

آدھے اہلِ جنّت ایک موقع پر اہلِ جنّت و دوزخ کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ! میں امید کرتا ہوں کہ تم لوگ جنتیوں کے چوتھائی ہوگے ، صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تکبیر کہی ( یعنی اللہ اکبر بآوازِ بلند کہا ) ، پھر فرمایا: میں امید کرتا ہوں کہ تم جنتیوں کے تہائی ہوگے ، صحابہ نے پھر تکبیر کہی ، پھر فرمایا: مجھے امید ہے کہ تم جنتیوں میں آدھے ہوگے ، صحابہ نے تکبیر کہی۔)[9](

حکیمُ الاُمّت مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: یعنی اولًا تم لوگ تمام اولین و آخرین جنتیوں میں چہارم ہوگے کہ تین حصوں میں سارے جنتی انسان از آدم تا عیسیٰ علیہما السّلام اور چوتھائی تم ، پھر تم تہائی ہوجاؤ گے پھر آدھے۔ دوسری روایات میں ہے کہ دو تہائی جنتی حضور کی امت ایک تہائی میں سارے لوگ مگر اس طرح کہ مسلمان جنّت میں آگے پیچھے پہنچیں گے ، جب سارے مسلمان وہاں داخل ہوجائیں گے تب حضور کی اُمّت ۳ / ۲ اور باقی امتیں ۳ / ۱۔  ( دوتہائی کی تفصیل اگلی روایت اور اس کی شرح میں آرہی ہے )  تکبیر کہنے پر مفتی صاحب لکھتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ وعظ و تقریریں ، اچھی خوشخبری ، اعلیٰ نکتہ سُن کر نعرۂ تکبیر لگانا سنّتِ صحابہ ہے جو آج کل بھی رائج ہے۔)[10](

جنتیوں کی120صفوں میں 80صفیں امتِ محمدیہ حضرت بُرَیْدَہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اہلِ جنّت کی 120صفیں ہیں ، جن میں سے 80 صفیں اس امت کی ہیں اور 40 صفیں باقی ساری امتوں کی۔)[11](

حکیمُ الاُمّت مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: صفیں کتنی بڑی ہیں یہ ہمارے خیال و وہم سے وراء ہے ، ان ایک سوبیس صفوں میں از آدم تا روزِ قیامت سارے مؤمن آجائیں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کل جنتیوں میں دو تہائی حضور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی امت ہوگی اور ایک تہائی میں ساری پچھلی امتیں ، نوع میں وہ لوگ زیادہ کہ وہ ایک لاکھ تئیس ہزار نو سو ننانوے نبیوں کی امتیں ہوں گی مگر تعدادِ اشخاص میں یہ اُمّت زیادہ۔ خیال رہے کہ اولًا یہ امت تمام جنتیوں کی نصف ہوگی پھر بعد میں اور زیادہ ہو کر دو تہائی ہوجائے گی لہٰذا یہ حدیث اِس کے خلاف نہیں جس میں اس امت کو تمام جنتیوں کا آدھا فرمایا گیا ، اس کے اوربھی بہت جواب دیئے گئے ہیں ، یہ جواب قوی ہے۔وَاللہ اَعلم ! دیکھو قرآن مجید میں بدری فرشتوں کی تعداد ایک ہزار بھی فرمائی گئی ، تین ہزار بھی ، پانچ ہزار بھی کہ وہاں اولًا ایک ہزار آئے ، پھر دو ہزار اور آئے جس سے تین ہزار ہوگئے پھر دو ہزار اور آئے جس سے پانچ ہزار ہوگئے ایسے ہی یہاں ہے۔)[12](

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] مسلم ، ص107 ، حدیث:484

[2] ترمذی ، 4 / 200 ، حدیث:2451

[3] مراٰۃ المناجیح کے جس نسخے کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے اس میں یہ الفاظ”اور رجاء“ نہیں ہیں۔ یہ الفاظ مکتبہ اسلامیہ کے نسخے سے شامل کئے گئے ہیں اور جس حدیث کی یہ شرح ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہ الفاظ موجود ہوں۔

[4] مراٰۃ المناجیح ، 7 / 458

[5] ابوداؤد ، 4 / 313 ، حدیث:4746

[6] مراٰۃ المناجیح ، 7 / 457

[7] ابن حبان ، 9 / 184 ، حدیث:7203

[8] مراٰۃ المناجیح ، 7 / 392 ، 393

[9] بخاری ، 2 / 420 ، حدیث:3348

[10] مراٰۃ المناجیح ، 7 / 375 ملتقطاً

[11] ترمذی ، 4 / 244 ، حدیث:2555

[12] مراٰۃ المناجیح ، 7 / 502


Share

Articles

Comments


Security Code