سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

دُور اندیش سِپہ سالار(قسط : 10)

* مولانا ابو الحسن عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021

 گزشتہ سے پیوستہ

(21)فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : اَنَا رَسُولُ الْمَلْحَمَةِ یعنی میں میدانِ جنگ والا رسول ہوں۔ [1]

محسنِ انسانیت ، تاجدارِ رسالت ، احمدِ مجتبیٰ ، محمدِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سیرتِ مبارَکہ کا ایک بہت ہی اہم پہلو آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے مغازی ہیں۔ ماضی و حال میں علمائے کرام نے اس موضوع پر کثیر کتب لکھی ہیں ، بلکہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سیرتِ طیبہ پر جو اولین کُتب پائی جاتی ہیں وہ بھی مغازی کے نام ہی سے مرتب ہوئیں۔

اوپر مذکور فرمانِ سرورِ کائنات  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  میں آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا اسمِ گرامی “ رَسُولُ الْمَلْحَمَة “ ذکر ہوا۔ اس اسمِ مبارک میں بھی مَعانی و مفاہیم اور رسولِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شان و عظمت کا بیّن بیان ہے۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی حیاتِ مبارکہ کا مغازی کا پہلو دیکھا جائے تو اس اسم کا معنیٰ “ ماہر قائد “ ، “ ماہر و دور اندیش سپہ سالار “ ، “ جنگی اصول و قوانین کے ماہر “ ہونا واضح ہوتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے جنگ و جدل کے خون ریز مقصود و مفہوم کو بدل کر رکھ دیا۔ عمومی طور پر جنگ اور لڑائی کے الفاظ سنتے بولتے ہی ذہن میں تباہی و بربادی اور قتل و غارت کا تصور آتا ہے۔ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے پہلے اور موجودہ دور میں بھی اسوۂ نبوی سے دور معاشروں میں جنگ و جدل کا معاملہ بہت خوفناک ہے ، مگر رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے جنگ کے جو اصول اور جو قوانین وضع فرمائے ان سے جنگ کا مقصود و پہلو یکسر بدل کر رہ گیا۔

رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  جب کسی آدمی کو کسی لشکر یا سَرْیَہ کا امیر بناتے تو اسے خاص طور پر اللہ سے ڈرنے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت فرماتے پھر انہیں لڑائی سے پہلے کی نصیحت فرماتے کہ جب دشمن سے سامنا ہو تو پہلے اسے اسلام کی دعوت دو اگر وہ مان لیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں ، اگر نہ مانیں تو انہیں اطاعت کرنے اور جِزْیَہ دینے کی تلقین کرو ، اگر وہ مان لیں تو ٹھیک ہے اور اگر وہ جنگ پر ہی بضد ہوں تو اللہ کی مدد سے لڑو۔ [2]

رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی اولین کوشش ہوتی کہ جنگ نہ ہو پھر بھی اگر دشمن کی ہٹ دھرمی اور ضد کے باعث جنگ کی نوبت آہی جاتی تو بھی وصفِ رحمت غالب نظر آتا ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مبارک تعلیمات تھیں کہ جنگ میں صرف اسے ہی نقصان پہنچے جو اسلام دشمنی میں لڑنے آیا ہو ، کسی بوڑھے ، بچے ، نہتے اور خواتین ، جانوروں یہاں تک کہ درختوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے جیسا کہ ذیل کی احادیثِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے۔

بخاری شریف میں ہے : “ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ یعنی رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے عورتوں اور بچّوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ “ [3]

ایک جنگ کے موقع پر رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے جرنیلِ اسلام حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو یہ حکم بھیجا : “ لَاتَقْتُلُنَّ اِمْرَاَةً وَلَا عَسِيفًا یعنی عورت اور مزدور کو ہرگز قتل نہ کرنا۔ “ [4]

اسی طرح بے گناہ مَردوں ، بوڑھوں ، عورتوں اور بچّوں کے بارے میں رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اہلِ اسلام کو کیا ہی خوب تعلیم دی : “ وَلَا تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيًا وَلَا طِفْلًا وَلَا صَغِيرًا وَلَا اِمْرَاَةً یعنی بوڑھے آدمی ، شیر خوار اور نابالغ بچّوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا۔ “ [5]

قربان جائیے سپہ سالارِ اعظم جنابِ رسولِ مکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے مبارک اُسوہ پر کہ جان کے دشمنوں کے بارے میں بھی کمال شفقت کا پہلو رکھتے ، ایک موقع پر فرمایا : “ لَا تَمْثُلُوا “ مُثلہ نہ کرو یعنی لاشوں کی بے حرمتی نہ کرو اور ان کے ہونٹ ، ناک ، کان وغیرہ نہ کاٹو۔ [6]

اسلاموفوبیا کے شکار لوگ یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ اسلام ایک جارحانہ مذہب ہے اور اس کے پھیلنے کا سبب صرف تلوار ہے۔ یہ ایک سراسر بے بنیاد اور جھوٹا پروپیگنڈا ہے ، یہ سچ ہے کہ دفاعِ اسلام و مسلمین کے لئے رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے تلوار بھی اٹھائی اور جنگیں بھی لڑیں ، لیکن سیرتِ سرورِ کائنات کا مطالعہ کیا جائے تو اصل حقیقت آشکار ہوتی ہے ، اسلام پر ایسی الزام تراشیاں کرنے والوں کو یہ نظر کیوں نہیں آتا کہ اسلام نے 13سال تک لگاتار ظلم و ستم کی اندوہناک آندھیوں کا سامنا کرنے کے بعد تلوار اٹھائی ، غزوۂ بدر میں مشرکینِ مکہ کی لاشوں پر واویلا کرنے والوں کو شعبِ ابی طالب کا تین سال کا وہ محاصرہ کیوں نظر نہیں آتا جس میں شیر خوار بچّے بھی پانی کو ترستے تھے اور خاندانِ بنو ہاشم نے گھاس اور پتے کھا کر گزارہ کیا۔ غزواتُ النبی پر اعتراض کرنے والوں کو دشمنوں کا وہ رویہ کیوں نظر نہیں آتا کہ جب کائنات کا بےضرر ترین انسان سجدے میں ہوتا ہے اور اس کے اوپر اونٹنی کی بچّہ دانی لاکر ڈال دی جاتی ہے ، تین سال تک کے لئے ہر طرح کا سوشل بائیکاٹ کردیا جاتاہے ، قتل کے منصوبے بنائے جاتے ہیں ،  وادیِ طائف میں پتھر مار مار کر لہولہان کردیا جاتاہے اور وہ رحمتِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اسی طرح زخموں سے چُور طائف سے مکہ تک کا سفر کرتے ہیں(موجودہ دور میں یہ سفر بائی روڈ تقریباً 90 کلومیڑ ہے) ، یہ سب کچھ صرف ایک بات کے بدلے میں ہوا وہ یہ کہ “ اے لوگو! اللہ ایک ہے ، وہی عبادت کے لائق ہے ، اسی کو اپنا معبود مانو۔ ۔ ۔ “ صرف اس ایک بات پر اس قدر ظلم ڈھائے گئے ، اسی بات پر لَبَّیْک کہنے والے غریب اور کمزور اَصحاب کو کیسے تپتی ریت اور کوئلوں پر لٹایا گیا ، گلیوں میں گھسیٹا گیا ، یہاں تک کہ ضعیفُ العمر بوڑھی بی بی حضرت سُمَیہ  رضی اللہُ عنہا  کو تکلیفیں دے دے کر بالآخر نیزہ مار کر شہید کردیا ، ایسے مظالم بیسیوں بار ہوئے لیکن میرے کریم آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے پھر بھی ہر موقع پر بلکہ خونریز میدانِ جنگ میں بھی رحمت و شفقت ہی سے کام لیا۔

بقیہ اگلی قسط میں۔ ۔ ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] طبقات ابن سعد ، 1 / 84

[2] مسلم ، ص738 ، حدیث : 4522 ماخوذاً

[3] بخاری ، 2 / 314 ، حدیث : 3015

[4] ابوداؤد ، 3 / 73 ، حدیث : 2669

[5] ابوداؤد ، 3 / 53 ، حدیث : 2614

[6] مسلم ، ص738 ، حدیث : 4522۔


Share

Articles

Comments


Security Code