سلمان الخیر حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ

زُہدو قَناعت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے، تقویٰ اور پرہیز گاری کے پھولوں کو اپنے دامن پر سجانے والے، حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے تابعی اور رحمتِ عالَم،نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صحابی ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والے مشہور صحابیِ رسول،سَلْمانُ الخَیْر حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے اِسلام لانے کا واقعہ بہت اہم ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج8، ص522ملخصاً)چنانچہ

ایران سے مدینے تک کا سفرآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اَصْفَہَان (ایران) کے رہنے والے تھے۔ آباو اَجداد آتش پرَسْت تھے۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بچپن سے ہی سادہ اور خاموش طبیعت تھے، ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کے بجائے ہر وقت آتش کَدے کی آگ روشن رکھنے میں مصروف رہتے مگر جلد ہی مجوسیّت سے بیزارہوگئے اور دینِ حق کی تلاش میں اپنے وطن سے نکل کر شام جاپہنچے ،جہاں مختلف دینی و مذہبی راہنماؤں کی صحبت اختیار کی۔ ہر مذہبی راہنما یا تو خود یہ وصِیَّت کردیا کرتا کہ میرے بعدفلاں کے پاس جانا ،یا پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ خودپوچھ لیا کرتے کہ اب کس ہستی کی صحبت اختیار کروں؟ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے آخری رَاہِب سے پوچھا تواس نے کہا : اے حق کے مُتَلاشی بیٹے!اس دنیا میں مجھے کوئی ایسا شخص نظرنہیں آتا جس کی صحبت میں تمہیں اَمن و سلامتی نصیب ہو، ہاں!اب نبیِّ آخِرُ الزَّماں کے ظہور کا وقت قریب ہے جو دینِ ابراہیمی پر ہوں گے، اُس مقام کی جانب ہجرت کریں گے جو دو پہاڑوں کے درمیان ہوگا، جہاں کھجور کے درخت کثرت سے پائے جائیں گے، اُن کے دونوں کندھوں کے درمیان مُہر ِنَبُوَّت ہوگی،وہ ہدیہ قبول کریں گے اور صدقہ نہیں کھائیں گے۔ رَاہِب کے انتقال کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اِس وصیت کو پیشِ نظر رکھا اور ایک قافلے کے ہمراہ آگے بڑھ گئے۔راستے میں قافلے والوں کی نیَّت بدل گئی اور انہوں نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو ایک یہودی کے ہاتھ بیچ دیا یوں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو غلامی کی زنجیر وں میں جکڑ دیا گیا۔(طبقاتِ ابنِ سعد،ج4، ص56) تقریباً دس بار بیچے گئے (بخاری،ج2، ص607، حدیث: 3946) بالآخر بکتے بِکاتے مدینۂ مُنَوَّرہ پہنچ گئے۔

مدنی آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سےملنے نہ دیاگیا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ایک مرتبہ کھجور کے درخت پر چڑھ کر کھجور توڑ رہے تھے کہ خبر  سنی کہ نبیِّ آخِرُ الزَّمَاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہجرت فرماکر مدینے کے قریب مقامِ قُبا میں تشریف لا چکے ہیں اسی وقت دل بے قرار ہوگیا،فوراً نیچے تشریف لائے اور خبر لانے والے سے دوبارہ یہ روح پَروَر خبر سننے کی خواہش ظاہر کی یہودی آقا نے اپنے غلام کا تَجَسُّس اور بے قراری دیکھی تو چراغ پَا (غصے)ہوگیا اور ایک زوردار تھپڑ رسید کرکے کہنے لگا: تمہیں ان باتوں سے کیا مطلب؟ جاؤ!دوبارہ کام پر لگ جاؤ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ دل پر پتھر رکھ کر خاموش ہوگئے لیکن متاعِ صَبْر و قَرار تو لُٹ چکا تھا لہٰذا جونہی موقع ملا چند تازہ کھجوریں ایک طَباق میں رکھ کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:یہ صدقہ ہے، قبول فرمالیجئے،پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے فرمایا:تم کھالو،اور خود تناول نہ کیا ۔ آپ نے دل میں کہا: ایک نشانی تو پوری ہوئی ، اگلی مرتبہ پھر کھجوروں کا خوان لے کر پہنچے اور عرض گزار ہوئے کہ یہ ہدیہ ہے، قبول فرمالیجئے ۔ رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ  الرِّضْوَان کوکھانے کا اشارہ کیا اور خود بھی تناول فرمایا ۔ دل میں کہا:دوسری نشانی بھی پوری ہوئی اس درمیان میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دونوں شانوں کے درمیان’’مُہر ِنَبُوَّت‘‘کو بھی دیکھ لیا اس لئے فوراً اسلام قبول کر لیااور اس دَر کے غلام بن گئے جس پر شاہَوں کے سَر جھکتے ہیں۔(طبقاتِ ابنِ سعد  ،ج4، ص58 ملخصاً)

آزادی کیسے ملی؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے  ہونے کی وجہ سے غزوۂ بدر و اُحد  میں حصہ نہ لے سکے پھر تین سو کھجور کے درخت اور چالیس اوقیہ چاندی کے بدلے آزادی کا تاج سر پر سجایا اور ایک سرفروش مجاہد کی طرح بعد میں آنے والے تمام غزوات میں حصہ لیا۔(تاریخ ِابنِ عساکر،ج21، ص388 ،389 ملخصاً) غزوۂ خندق میں خندق کھودنے کا مشورہ بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہی کا تھا ۔(طبقاتِ ابنِ سعد،ج2، ص51)

فضائلآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو سرورِ کونین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے والہانہ محبت تھی، اپنے وقت کا بیشتر حصہ دربار ِ رسالت میں گزارتے اور فیضانِ نبوی سے بَہرہ مَند ہوتے، اِس کے بدلے میں بارگاہ ِ رسالت سے سَلْمَانُ الْخَیْر (سنن الکبری للنسائی،ج6، ص9، حدیث: 9849) اور سَلْمَانُ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْت (سلمان ہمارے اَہلِ بیت سےہیں)(مسند بزار،ج13، ص139، حدیث: 6534) جیسی نویدِ جاں فِزا سننے کی سعادت پائی ایک اور مقام پر اس بشارتِ عظمیٰ سے سرفراز ہوئے کہ جنّت” سلمان فارسی“ کی مشتاق ہے۔(ترمذی،ج5، ص438،حدیث: 3822)جب کوئی پوچھتا کہ آپ کے والد کون ہیں؟ تو ارشاد فرماتے: میں دینِ اِسلام کا بیٹا سلمان  ہوں۔(الاستیعاب،ج2، ص194)

گورنر خادم بن گیاسرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصالِ ظاہری کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک عرصہ تک مدینہ میں قیام فرمایا پھرعہد ِفاروقی میں عراق میں سکونت اختیارکرلی۔کچھ عرصے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے آپ کو مدائِن کا گورنرمقرر کردیا۔گورنر کے اہم اور بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بڑی سادہ زندگی گزاری، ایک دن مدائن کے بازار میں جارہے تھے کہ ایک ناوَاقِف شخص نے آپ کو مزدور سمجھ کر اپنا سامان اٹھانے کے لئے کہا،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ چپ چاپ سامان اٹھا کر اس کے پیچھے چلنے لگے، لوگوں نے دیکھا تو کہا: اے صاحبِ رسول!آپ نے یہ بوجھ کیوں اٹھا رکھا ہے؟ لائیے! ہم اِسے اٹھالیتے ہیں۔ سامان کا مالک ہَکَّا بَکَّا رَہ گیا،پھر نہایت شرَمْسار ہوکر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے معافی مانگی اور سامان اُتروانا چاہالیکن آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا:میں نے تمہارا سامان اٹھانے کی نیّت کی تھی،اب اِسے تمہارے گھرتک پہنچا کر ہی دَم لوں گا۔(طبقاتِ ابنِ سعد،ج4، ص66)

راہِ خدا میں خرچ کرنے کا جذبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ راہ ِ خدا میں مال خرچ کرنے کو محبوب رکھا کرتے تھے چنانچہ بطورِ تنخواہ چار یا پانچ ہزار درہم ملتے لیکن پوری تنخواہ مساکین میں تقسیم فرمادیتے اور خود کھجور کے پتوں سے ٹوکریاں بناکر  چند درہم کماتے اور اسی پر اپنا گزر بسر کرتےتھے ۔(طبقاتِ ابنِ سعد،ج4، ص65)

وصال مبارک حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے10 رَجَبُ المُرَجَّب33یا36 ہجری میں اس دنیا سے کوچ فرمایا، مزارِ مبارک عراق کے شہر مدائن (جسے’’ سلمان پاک‘‘ بھی کہا جاتا ہے) میں ہے۔(تاریخ ابنِ عساکر،ج21، ص376،کراماتِ صحابہ، ص219) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ساڑھے تین سو سال (جبکہ بعض روایات کے مطابق اڑھائی سو سال) کی طویل عمر پائی۔(معرفۃ الصحابہ،ج2، ص455)


Share

Articles

Comments


Security Code