حضرت سیدنا صہیب رومی

ہجرتِ مدینہ کا اعلان ہوچکا تھا، جانثار صحابۂ کرام رضیَ اللہ عنہم مدینے کی طرف روانہ ہو رہے تھے ایسے میں ایک صحابیِ رسول ہجرت کرنے کے لئے مکّے سے نکلے تَو قُریش کا ایک گروہ ان کے پیچھے لگ گیا۔ صحابیِ رسول رضیَ اللہ عنہ اپنی سواری سے اترے اور تَرکَش سے تیر نکال کر فرمایا: اے گروہ ِقُریش! تم جانتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ ماہر تیر انداز ہوں۔ اللہ کی قسم! تم اس وقت تک مجھے نہیں پاسکتے جب تک میرے تَرکَش میں ایک تیر بھی باقی ہے پھر میں تلوار سے لڑوں گا یہاں تک کہ میرے ہاتھوں میں طاقت ختم ہو جائے، اب تمہاری مرضی ہے کہ میں تمہیں مکّے میں اپنے مال و دولت کے بارے میں بتادوں اور تم اس پر قبضہ کرلو اور میرا راستہ چھوڑ دو یا تم مجھ سے لڑو؟ کفّار مال لینے پر راضی ہوگئے اور صحابیِ رسول رضیَ اللہ عنہ کا راستہ چھوڑ دیا۔ جب وہ صحابی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم نے اِرشاد فرمایا: رَبِحَ الْبَيْعُ اَبَا يَحْيٰى رَبِحَ الْبَيْعُ اَبَا يَحْيٰى یعنی ابو یحییٰ نے نفع بخش تجارت کی، ابویحییٰ نے نفع بخش تجارت کی۔ (مسندحارث، ص:693،حدیث:679)

اے عاشقانِ رسول! بہترین تیر انداز، حوصلہ مند اور نفع بخش تجارت کرنے والے یہ صحابیِ رسول حضرت سیِّدُنا ابویحییٰ صُہَیْب بن سِنان رومی رضیَ اللہ عنہ تھے۔ رُومی کہنے کی وجہآپ رضیَ اللہ عنہ کے والد یا چچّا ایران کے بادشاہ کی طرف سے اُبُلّہ (عراق میں بصرہ کے قریب شہر) پر حاکم تھے، جبکہ آپ کا گھر مَوصِل کےقریب نہر ِفُرات کے کنارے ایک بستی میں تھا ایک دن رُومیوں نے حملہ کر کے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا اور کئی لوگوں کے ساتھ آپ کو بھی قیدی بنا کر روم لے گئے اس وقت آپ کم عمر تھے اس طرح آپ کی پرورش روم میں ہوئی۔ عرب شریف کیسے پہنچے؟ قبیلۂ بنو کلب کے ایک شخص نے آپ کو رومیوں سے خریدا اور مکّے لے آیا، پھر عبداللہ بن جُدعان نے آپ کو خرید لیا یہاں تک کہ آزادی کی دولت نصیب ہوگئی، بعض روایات کے مطابق بالغ ہونے کے بعد آپ شام سے بھاگ کر مکّہ آگئے تھے۔ (طبقات ابنِ سعد،ج 3،ص 170) آپ رضیَ اللہ عنہ نے ابتداءً مکّہ میں رہائش رکھی اور تجارت کا پیشہ اپنایا جس سے کافی مال کمالیا تھا۔ (الاعلام للزرکلی،ج 3،ص210) قبولِ اسلام آپ اور حضرت عمّار بن یاسر رضیَ اللہ عنہُمنے ایک ساتھ بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا تھا، اس وقت 30 سے کچھ زائد خوش نصیب دامنِ اسلام سے وابستہ ہوچکے تھے۔(طبقاتِ ابنِ سعد،ج 3،ص171) آپ ان سات افراد میں شامل ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اپنا اسلام ظاہر کیا۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ،ج 7،ص 537) 2فرامین ِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم (1) حوضِ کوثر پر سب سے پہلے جسے سیراب کیا جائے گا وہ صُہیب ہیں۔ (مسندالفردوس،ج1،ص36،حدیث: 57) (2)تم صہیب سے مَحبّت کرو جس طرح ماں اپنے بچّے سے مَحبّت کرتی ہے۔ (مستدرک،ج 3،ص494، حدیث: 5762، 5763) بارگاہِ رسالت سے آپ کو دو گھر اور ایک حجرہ عطا ہوئے تھے۔ (بخاری،ج 2،ص 183، حدیث: 2624) حلیہ اور اوصافِ مبارَکہآپ رضیَ اللہ عنہ کی رنگت گہری سرخ تھی، قد مبارَک درمیانہ سے کچھ کم تھا، سر کے بال گھنے تھے۔ (تاریخ ابنِ عساکر،ج24،ص215)آپ رضیَ اللہ عنہ سخی اور نرم دل تھے۔ (سیراعلام النبلاء،ج 3،ص361) راہِ خدا میں اپنا مال خرچ کرتے، جہاد کرتے، لوگوں کو بَکثرت کھانا کھلاتے، نفس کی مخالَفت کرتے تھے، علم و فضل والے اور اللہ پاک اور رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم کے احکامات کو بجا لانے میں جلدی کرنے والے تھے۔ (حلیۃ الاولیاء،ج 1،ص204)آپ رضیَ اللہ عنہ تقویٰ و پرہیز گاری اور حسنِ اَخلاق کے زیور سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوش مزاج بھی تھے۔ دوسری داڑھ سے کھا رہا ہوںایک مرتبہ حضرت سیّدُنا صُہیب رضیَ اللہ عنہ کی آنکھ دُکھ رہی تھی اور وه کھجور كھا رہے تھے، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم نے ارشاد فرمایا: تمہاری آنکھ دُکھ رہی ہے اور تم کھجور کھا رہے ہو؟ عرض کی: میں دوسری طرف سے کھا رہا ہوں، یہ سُن کر جانِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم مسکرا دئیے۔ (ابن ماجہ،ج 4،ص91، حدیث:3443) تکالیف و قربانیاںآپ رضیَ اللہ عنہ کاشمار ان کمزور مسلمانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کفّارِ مکّہ کی طرف سے ملنے والی اذیتوں اور تکالیف کو برداشت کیا، کفارِ مکّہ آپ کو اس قدر اذیت دیتے اور ایسی ایسی مار دھاڑ کرتے کہ آپ رضیَ اللہ عنہ گھنٹوں بے ہوش رہتے۔ (سیرتِ مصطفیٰ ،ص119) نیند نہ آتیآپ رضیَ اللہ عنہ شب بیدار تھے اور خوب عبادت کرتے تھے ایک مرتبہ زوجۂ محترمہ نے اس معامَلے میں آپ سے بات کی تو آپ رضیَ اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک اللہ نے رات کو سکون کے لئے بنایا ہے مگر میرے لئے نہیں ، مزید فرمایا : بے شک ! صُہیب جب جنّت کا ذکر کرتا ہے تَو اس کا شوق بڑھ جاتا ہے اور جب جہنّم کو یاد کرتا ہے تَواس کی نیند اُڑ جاتی ہے۔ (تفسیر ابنِ کثیر، پ7، الانعام ،تحت الآیۃ: 97، ج3،ص273)قُربتِ رسولآپ رضیَ اللہ عنہ تمام غزوات میں رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم کی صحبتِ بابرکت سے فیض پاتے رہے،آپ فرماتے ہیں: تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم جہاں بھی تشریف لے جاتے میں وہاں ضرور حاضر ہوتا، جب بھی کوئی بیعت لیتے میں اس میں ضرور شریک ہوتا۔جذبہ ٔ جانثاری مزید فرماتے ہیں: سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم نے جو بھی لشکر جنگ کے لئے روانہ فرمایا میں اس میں شریک رہا اورجس جنگ میں مصطفےٰکریم صلَّی اللہ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم بنفسِ نفیس شریک ہوتے، میں ساتھ ساتھ رہتا۔ اگر جانِ عالَم صلَّی اللہ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے سامنے کی طرف سے حملے کا اندیشہ ہوتا تَو سا منے آجاتا، اگر پیچھے سے خطرہ ہوتا تَو پیچھے آجاتا، میں نے کبھی بھی حضور نبی ِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم کو اپنے اور دشمنوں کے درمیان تنہانہیں چھوڑا۔ (حلیۃالاولیاء،ج1،ص204 ،رقم:497) دیگر خدمات آپ فتحِ شام کے موقَع پر امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا عمرفاروق رضیَ اللہ عنہ کے ساتھ شام تشریف لائے تھے۔ (تاریخ ابنِ عساکر،ج 24،ص210) مسجدِ نَبَوی میں امامت کی سعادت جب حضرت سیّدُنا عمرفاروق رضیَ اللہ عنہ قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے تو انہوں نے حضرت صُہیب کو نمازیں پڑھا نے کا حکم دیا آپ رضیَ اللہ عنہ تین دن تک حضرت عمر رضیَ اللہ عنہ کی جگہ نمازیں پڑھا تے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں نے حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہ عنہ کو خلافت کی اہم ذمّہ داری سونپ دی۔ (ایضاً،ج 24،ص243) حضرت عمر فاروقرضیَ اللہ عنہ کو قبر مبارَک میں اتارنے کی سعادت پانے والے چار صحابۂ کرام میں آپ بھی شامل تھے۔ (طبقات ابنِ سعد،ج 3 ،ص281)

وصال مبارکآپ رضیَ اللہ عنہ کا وصال مبارَک 38 ہجری ماہِ شوّال میں ہوا، نمازِ جنازہ حضرت سیّدُناسعد بن ابی وقّاص رضیَ اللہ عنہ نے پڑھائی جبکہ تدفین جنّتُ البقیع میں ہوئی، بَوقتِ انتقال آپ کی عُمْر مختلف روایات کے مطابق70، 73یا 84 سال تھی۔ (تاریخ ابنِ عساکر،ج 24 ،ص244 تا 246 ملتقطاً) روایتِ حدیث میں احتیاط ایک مرتبہ کسی نے آپ سے پوچھا: جس طرح دیگر صحابۂ کرام احادیثِ رسول بیان کرتے ہیں آپ کیوں بیان نہیں کرتے؟ فرمایا: جس طرح دوسروں نے سنا میں نے بھی سنا لیکن حدیثِ پاک ہے:جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنّم میں بنا لے، لِہٰذا میں تم سے وہی حدیث بیان کرتا ہوں جسے میرے دل نے یاد رکھا اور میرے کانوں نے محفوظ کیا۔(ایضاً،ج 24،ص237) روایات کی تعداد آپ سے روایت کردہ احادیث کی تعداد 30 کے قریب ہے جن میں سے امام مسلم نےتین احادیث روایت کی ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء،ج 3،ص366) آپ سے روایت کرنے والوں میں حضرت سیّدُنا عبداللہ بن عمر اور حضرت سیّدُنا جابر رضیَ اللہ عنہمجیسے عظیم صحابہ بھی شامل ہیں۔ (معرفۃ ُ الصحابہ لابی نعیم،ج 3،ص32)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭۔۔۔مدرس مرکزی جامعۃالمدینہ ،عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ، باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code