روشن ستارے

حضرت خَبَّاب بن اَرَت رضی اللہُ عنہ

* مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی

ماہنامہ ستمبر 2021

ایک صحابیِ رسول  رضی اللہُ عنہ  مکے میں لوہے کا کام کرتے تھے اور تلواریں بنایا کرتے تھے انہوں نے کچھ تلواریں بناکر ایک کافر عاص بن وائل کو فروخت کردیں جب اس کافر سے رقم کا مطالبہ کیا تو وہ کہنے لگا : میں تمہیں رقم اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تم محمد ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کا انکار نہیں کرو گے ، صحابیِ رسول نے کہا : تم مر جاؤ اور پھر زندہ کئے جاؤ تو پھر بھی میں محمدِ عربی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ یہ سُن کر اس کافر نے کہا : پھر تم مجھے چھوڑ دو ، میں مرجاؤں پھر دوبارہ زندہ کیا جاؤں اور میرے پاس مال و اولاد ہوگی تو ادا کردوں گا۔ [1]پیارے اسلامی بھائیو! عشقِ رسول اور جذبۂ ایمانی سے لبریز ، صبر و شکر کے ساتھ اسلام پر ثابت قدم رہنے والے یہ بلند مرتبہ صحابیِ رسول حضرت خَبَّاب بن اَرَت  رضی اللہُ عنہ  تھے۔

قبولِ اسلام :

آپ سابقین اَوَّلین میں شامل ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں آپ چھٹے نمبر پر اسلام لائے[2] جبکہ ایک قول کے مطابق آپ نے 19 افراد کے بعد اسلام قبول کیا یوں آپ نے 20 کے عدد کو مکمل کیا [3]جن 7 خوش نصیبوں نے سب سے پہلے اپنے اسلام کو ظاہر کیا ان میں آپ کا شمار بھی ہوتا ہے۔ [4]

مناقب :

آپ  رضی اللہُ عنہ  علم و فضل کی دولت سے مالامال تھے[5]اور صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  کو قراٰنِ پاک پڑھاتے تھے۔ [6] قبولِ اسلام سے قبل جب حضرت عمر فاروق  رضی اللہُ عنہ  غصہ کی حالت میں اپنی بہن کے گھر پہنچے تو اس وقت حضرت خباب  رضی اللہُ عنہ  اُن کی بہن اور بہنوئی کو قراٰنِ پاک کی تعلیم دے رہے تھے۔ [7] حضرت خباب نے رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ہمراہی میں غزوۂ بدر ، اُحد اور خندق سمیت کئی غزوات میں شامل ہونے کا اعزاز پایا ہے۔ [8] غزوۂ بدر میں رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ہم رکابی کا شرف پایا تو پوری رات پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  (کے خیمے) کی نگہبانی کرتے رہے یہاں تک فجرکا وقت ہوگیا۔ [9] آپ نبی کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا نیزہ رکھا کرتے تھے۔ [10]جب مال غنیمت سے آپ کا حصہ نکالا جاتا تو آزمائش میں پڑجانے کے خوف سے آپ روپڑتے تھے۔ [11]

راہِ خدا میں تکالیف :

آپ کی نسل عربی ہے ، زمانۂ جاہلیت میں کچھ لوگوں نے آپ کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر مکہ میں بیچ ڈالا تھا[12] قبولِ اسلام کے بعد مشرکین نے آپ کو کمزور پایا تو آپ کو سخت تکالیف دینی شروع کردیں تاکہ آپ دینِ اسلام کو چھوڑ دیں مگر آپ صبر و استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑے رہے ، [13] کفارِ مکہ آپ کو کانٹوں پر گھسیٹتے پھرتے تھے ، [14] آپ کو زرہ یعنی لوہے کا جنگی لباس پہنا دیتے اور تپتی دھوپ میں ڈال دیتے تھے۔ گرم پتھروں پر لٹاتے رہے یہاں تک کہ آپ کی پیٹھ کا گوشت (جگہ جگہ سے) کم ہوگیا۔ [15] آپ کے جسم کو داغا جاتا ، [16] ایک مرتبہ مشرکین نے آگ جلائی (پھر آپ کو پکڑ کر اس پر لٹادیا) ، آپ کی پیٹھ کی (پگھلنے والی) چربی ہی نے اس آگ کو بجھایا[17] ایک مرتبہ آپ نے حضرت سیّدُنا عمر فاروق اعظم  رضی اللہُ عنہ  کو اپنی تکالیف کی روئیداد یوں سنائی : ایک دن مشرکینِ مکّہ نے مجھے پکڑا ، آگ جلائی اور مجھے اُس پر پیٹھ کے بَل لٹا دیا ، ایک شخص میرے سینے پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا ، میں زمین سے اس وقت الگ ہوا جب میری پیٹھ جل چکی تھی۔ پھر حضرت خباب نے اپنی پیٹھ سے کپڑا ہٹایا تو وہاں برص جیسے دھبے تھے۔ [18]رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  آپ سے بہت انسیت رکھا کرتے اور آپ کے پاس تشریف لایا کرتے تھے ، آپ کی مالکن کو اس کی اطلاع ملتی تو وہ گرم سلاخ سے آپ کے سر کو داغ دیتی ، رسولِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  تک اس کی خبر پہنچی تو آپ نے حضرت خباب کے لئے دعا کی : اے اللہ! تو خباب کی مدد کر۔ (کچھ دنوں بعد) آپ  رضی اللہُ عنہ  کی مالکن کے سر میں کوئی بیماری ہوگئی جس کی وجہ سے وہ کتے کی طرح بھونکنے لگ گئی ، کسی نے اسے سر کو گرم سلاخ سے داغنے کا علاج بتایا ، خدا کی قدرت کہ اب حضرت خباب کی یہ ڈیوٹی لگ گئی کہ آپ گرم سلاخ لیتے اور اپنی ظالم مالکن کے سر کو داغا کرتے۔[19]

عشقِ رسول :

آپ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مجھے کسی لشکر کے ساتھ بھیجا تو میں نے عرض کی : یارسولَ اللہ! آپ مجھے دور بھیج رہے ہیں حالانکہ میں (آپ کی حفاظت کی غرض سے) آپ کی طرف سے فکر مند رہتا ہوں ، ارشاد فرمایا : (میرے بارے میں) کتنا فکرمند رہتے ہو؟ عرض کی : صبح کرتا ہوں تو گمان نہیں ہوتا کہ آپ شام کر پائیں گے ، شام کرتا ہوں تو گمان نہیں ہوتا کہ آپ صبح کر پائیں گے۔ [20]

کرامت :

ایک مرتبہ پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے جہاد کے لئے ایک لشکر روانہ فرمایا۔ راہ میں پانی ختم ہوگیا اور سب پیاس سے بے چین ہوگئے یہ دیکھ کر آپ نے ایک ساتھی کی اونٹنی کو بٹھایا ، اچانک اس کے تھن (دودھ سے بھر کر) مشکیزہ کی طرح پھول گئے ، سب نے سیر ہوکر دودھ پیا۔ [21]

انفرادی کوشش :

آپ نے ایک مرد کو ملاحظہ کیا جو نصف النہار کے وقت نماز پڑھ رہا تھا آپ نے اسے روکا اور ارشاد فرمایا : یہ وہ گھڑی ہے جس میں جہنم کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں تم اس وقت میں نماز مت پڑھو۔ [22]

تلاوتِ قراٰن :

ایک مرتبہ آپ کا پڑوسی مسجد سے باہر نکل رہا تھا تو آپ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جتنی طاقت رکھتے ہو اس سے اللہ کا قرب حاصل کرو ، بے شک! تم اس کے کلام (قراٰن) سے بڑھ کر کسی چیز کےذریعے اس کا قرب نہیں پاسکتے۔ [1] آپ جہاں نیکی کی دعوت عام کرتے وہیں حد درجہ محتاط بھی تھے ایک مرتبہ کچھ لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ مسجد میں تشریف لے آئے اور خاموشی سے بیٹھ گئے ، لوگوں نے عرض کی : لوگ آپ کے اِرد گرد جمع ہوچکے ہیں تاکہ آپ ان سے گفتگو کریں یا ان کو کسی بات کا حکم دیں۔ آپ نے فرمایا : میں انہیں کس چیز کا حکم دوں ، شاید میں انہیں ایسی بات کا حکم دے بیٹھوں جسے میں خود نہیں کرتا۔ [2]

وفات :

کوفہ میں لوگ اپنے مُردوں کو گھروں کے صحن یا دروازے کے پاس دفن کرتے تھے۔ حضرت خباب کوفہ تشریف لائے تو آپ کو یہ بات ناگوار گزری لہٰذا آپ نے اپنے بیٹے کو وصیت کی : تم مجھے کوفہ سے باہر میدان میں دفن کرنا ، آپ کی وصیت پر عمل کیا گیا اس طرح کوفہ کے باہر میدان میں بننے والی سب سے پہلی قبر آپ کی تھی ، دیکھا دیکھی دیگر لوگ بھی اپنے مرحومین کو میدان میں دفنانے لگے۔ [3] آپ کی عمر مبارک 73 سال تھی۔ [4]حضرت سیّدُنا مولا علی  رضی اللہُ عنہ  ماہِ صفر سِن 37 ہجری میں ہونے والی جنگ صِفِّین سے فارغ ہوکر واپس[5]کوفہ شہر کے دروازہ پر پہنچے تو وہاں سات قبریں نظر آئیں ، مولا علی  رضی اللہُ عنہ  کو آپ کی وفات کا علم ہوا تو فرمانے لگے : اللہ خَبَّاب پر رحم فرمائے! وہ بخوشی اسلام لائے اور راضی برضا ہوکر ہجرت کی اور مجاہد بن کر اپنی زندگی گزاری۔ [6]آپ سے 32 احادیثِ کریمہ روایت کی گئی ہیں ، 3 احادیث بالاتفاق بخاری و مسلم میں ہیں۔ 2حدیثیں امام بخاری نے جبکہ 1حدیث امام مسلم نے انفرادی طور پر روایت کی ہے۔ [7]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ، کراچی

 



[1] بخاری ، 3 / 272 ، حدیث : 4733 ، 4734 ، سیرت ابن ہشام ، ص141

[2] اسد الغابہ2 / 141

[3] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 5

[4] تاریخ ابن عساکر ، 43 / 366

[5] استیعاب ، 2 / 21

[6] عمدۃ القاری ، 11 / 583 ، تحت الحدیث : 3867

[7] تاریخ ابن عساکر ، 44 / 34ملخصاً

[8] مستدرک ، 4 / 468 ، حدیث : 5692

[9] نسائی ، ص285 ، حدیث : 1635

[10] معجم کبیر ، 4 / 64

[11] حلیۃ الاولیاء ، 1 / 194

[12] اسد الغابہ ، 2 / 141

[13] الاعلام للزرکلی ، 2 / 301

[14] در منثور ، پ14 ، النحل ، تحت الایۃ : 106 ، 5 / 170

[15] اسد الغابہ ، 2 / 141

[16] حلیۃ الاولیاء ، 1 / 194

[17] الطبقات الکبریٰ للشعرانی ، 1 / 35

[18] طبقات ابن سعد ، 3 / 123

[19] اسد الغابہ ، 2 / 142

[20] معجم کبیر ، 4 / 81

[21] معجم کبیر ، 4 / 78

[22] تخویف من النار ، ص93

[23] مستدرک ، 3 / 231 ، حدیث : 3704

[24] اسد الغابہ ، 2 / 143

[25] معجم کبیر ، 4 / 56 ، مستدرک ، 4 / 468 ، حدیث : 5691

[26] سیر السلف الصالحین ، ص178

[27] سیر السلف الصالحین ، ص178 ، تاریخ ابن عساکر ، 43 / 359

[28] معجم کبیر ، 4 / 56

[29] شرح ابی داود للعینی ، 3 / 460 ، تحت الحدیث : 778


Share

Articles

Comments


Security Code