حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما

روشن ستارے

حضرت نعمان بن بشیر  رضی اللہ عنہما

*مولانا عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست2023

انصار صحابہ کے کسی گھرانے میں ایک بچّے کی پیدائش ہوئی تو والدہ اسے لے کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوگئیں ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بچے کو گھٹی دی اور بشارت سنائی : یہ  ( بچہ )  قابلِ تعریف زندگی گزارے گا ، شہید ہوگا اور جنّت میں داخل ہوگا۔

 ( البدایۃ والنہایہ ، 5 / 760 )

پیارے اسلامی بھائیو ! فرمانِ عالیشان کے مطابق اس بچے نے اپنی زندگی بھلائی اور وسعت میں گزاری اور آخر میں شہادت کا جوڑا زیبِ تن کیا ، بشارت پانے والے اس مبارک بچے کا نام حضرت نُعمان بن بَشِیر رضی اللہ عنہماتھا ، ہجرتِ نبوی کے بعد انصار گھرانوں میں سب سے پہلے جس بچے نے آنکھ کھولی وہ آپ ہی کی ذاتِ بابرکت تھی۔ ( طبقات ابن سعد ، 6 / 122 )  

بچپن : آپ اپنے بچپن کی ایک خوشگوار یاد کو بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے دو خوشے عطا کئے اور اشارہ کرکے فرمایا : اسے تم کھا لینا اور اسے اپنی والدہ کو دے دینا ، میں نے دونوں خوشے کھالئے۔ بعد میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے دریافت فرمایا تو میں نے عرض کی : وہ میں نے کھالئے ، یہ سن کر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے  کان سے پکڑ لیا۔ ( الاستیعاب ، 4 / 61- معجم اوسط ، 1 / 515 ، حدیث : 1899 )  

رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ کان پکڑنا یقیناً  شفقت و تربیت کے لیے تھا جیسا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت اور ساری حیات میں ہمیں ملتاہے۔

رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصال کے وقت حضرت نُعمان بن بَشِیر  رضی اللہ عنہما کی عمر 8 سال7 مہینے تھی۔ ( اسد الغابہ ، 5 / 341 )  

مناقب : آپ مشہور صحابی حضرت عبدُ اللہ بن رَوَاحَہ رضی اللہ عنہ کے بھانجے ہیں  ( الثقات لابن حبان ، 1 / 454 )  آپ کا شمار بالاتفاق کم سِن صحابہ میں ہوتا ہے۔ ( سیر اعلام النبلاء ، 4 / 494 )

حلیہ و عادات : آپ رضی اللہ عنہ کی دونوں آنکھوں میں سُرخ ڈورے تھے ، ناک لمبی اور داڑھی گھنی تھی جبکہ زبان نہایت شیریں تھی۔  ( تاریخ ابن عساکر ، 62 / 126 )  آپ عابد و زاہد اور نرم طبیعت کے مالک تھے ، بلا وجہ جنگ و جدال کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ( الکامل فی التاریخ ، 3 / 386 ، 387 )  آپ خوش بیان خطیب  ( تاریخ ابن عساکر ، 62 / 123 )  اور شاعر تھے جبکہ سخاوت ، حکمتِ عملی اور اہلِ بیت سے محبت کا عنصر آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ( الاستیعاب ، 4 / 62 )  

خیر خواہی : حِمْص کی گورنر ی کے دوران ایک جاننے والا شخص آپ کے پاس آیا اور اپنی مالی پریشانی ظاہر کی تو آپ نے اپنا سر جھکالیا پھر فرمایا : تمہیں دینے کےلئے اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے لیکن یمن والوں کی جانب سے اہلِ حِمص کے لئے 20 ہزار کی رقم آئی ہوئی ہے اگر تم اجازت دو تو میں اہلِ حمص سے بات کروں ، اس نے اجازت دی تو آپ نے منبر پر کھڑے ہوکر اللہ کی حمد و ثنا کی پھر لوگوں سے فرمایا : تمہارا ایک بھائی سخت پریشانی میں ہے اور اسے تمہاری مدد کی ضرورت ہے ، لوگوں نے کہا :  ( ہر شخص کی جانب سے )  ایک ایک دینار دے دیں ، آپ نے فرمایا : ایسا نہ کرو بلکہ دو شخص ایک دینار دیں ، لوگوں نے کہا : ہم اس پر راضی ہیں ، آپ نےپھر فرمایا : بیتُ المال سے تمہارے لئے عطیات نکالے جائیں گے اگر تم چاہو تو میں جلدی کرکے تمہارے عطیات میں سے اس پریشان حال شخص کو دے دوں۔ لوگوں نے اس کی بھی اجازت دی تو آپ نے بیتُ المال سے 10 ہزار دینار نکال کر اس شخص کو دے دیئے۔  ( الاستیعاب ، 4 / 62- المنتظم ، 5 / 334 )

اہلِ بیت سے محبت : سِن 59 ھ میں جب امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاصد حضرت مُسلم بن عَقِیل کُوفہ تشریف لائے اور 12 ہزار افراد ان کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے گورنر ہونے کے باوجود اہلِ حق کا ساتھ دیا اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی ، یزید کا ایک حمایتی شخص کہنے لگا : آپ کمزور ہیں شہر میں فساد ہورہا ہے ، آپ نے جواباً فرمایا : رب تعالیٰ کی نافرمانی کروں اور مجھے طاقت ور کہا جائے اس سے زیادہ پسند مجھے یہ بات ہے کہ میں اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کروں اور کمزور کہا جاؤں۔  ( تاریخ طبری ، 9 / 163 )  آپ کو جب یہ خبر پہنچی کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لارہے ہیں تو فرمایا : مجھے یزید سے زیادہ شہزادی فاطمہ کی اولاد محبوب ہے۔ یہ بات یزید کو پتا چلی تو اس نے آپ کو گورنری سے معزول کردیا اور آپ کی جگہ اِبنِ زیاد کو گورنر بنادیا۔  ( المحاسن والمساوی لابراہیم البیہقی ، ص55 ملخصاً )  اِبنِ زیاد نے کوفہ پہنچ کر یمنی لباس پہنا اور یمنی چادر سر پر ڈال کر منہ چھپا لیا پھر خچر لے کر چل پڑا ، لوگ سمجھےکہ ”امام حسین آگئے ہیں“ لہٰذا نعرے لگانے لگے : خوش آمدید اِبنِ رسول اللہ ! حضرت نعمان رضی اللہ عنہ نے بھی یہی سمجھ کر محل کا دروازہ کھول دیا اس طرح اِبنِ زیاد نے محل پر قبضہ کرلیا  ( تاریخ طبری ، 9 / 174ملخصاً )  آخرِ کار آپ کوفہ چھوڑ کر شام چلے آئے۔ ( البدیہ والنہایہ ، 5 / 704 )  

سیاسی خدمات : حضرت عمر فاروق یا حضرت عثمانِ غنی  رضی اللہ عنہما نے آپ کو صدقات وصول کرنے پر ذمہ دار مقرر کیا ،  ( تاریخ ابن عساکر ، 40 / 221 )   آپ نے 53 ھ دِمشق میں جج کے فرائض سر انجام دئیے ، پھر یمن کے والی بنے اس کے بعد کوفہ میں 9 مہینے تک گورنری کے عہدے پر فائز رہے ،  ( اعلام للزرکلی ، 8 / 36 )  واقعۂ کربلا سے پہلے یزید نے آپ کو معزول کیاتو آپ شام آگئےاور تاحیات حِمْص شہر کے گورنر رہے ، 64 ھ میں یزید مرا تو آپ نے صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہما کو حِمْص آنے کی دعوت دی۔  ( طبقات ابن سعد ، 6 / 122 )  

شہادت : امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت عبداللہ بن زبیر نے خلافت کا اعلان کیا تو آپ نے حضرت عبداللہ بن زبیر کی بیعت کرلی تھی لیکن اہلِ شہر نے ساتھ نہ دیا اور سرکش اور باغی ہوگئے آخر کار آپ نے شہر چھوڑ دیا لیکن راستے میں آپ کو شہید کردیا گیا  ( اعلام للزرکلی ، 8 / 36 )   واقعۂ شہادت 64ھ کے آخر یا 65ھ کے شروع  میں پیش آیا  ( سیر اعلام النبلاء ، 4 / 495-تاریخ ابن عساکر ، 62 / 127 )  مزارِ اقدس دَیر نعمان  ( نزد حِمص )  شام میں ہے۔

مرویات : حضرت نعمان بن بشیر  رضی اللہ عنہما سے 114 احادیث کے مہکتے پھول مَروی ہیں پانچ احادیث مُتَّفَق عَلَیہ ہیں ایک حدیث کو امام بخاری نے جبکہ چار احادیث کو امام مسلم نے انفرادی طور پراپنی صَحِیحَین میں روایت کیا ہے۔ ( سیر اعلام النبلاء ، 4 / 494 )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ، کراچی


Share