حضرت سیّدنا ابو اُمامہ باہِلی رضی اللہ عنہ

روشن ستارے

 حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ

*  عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ ربیع الآخر 1442ھ

ایک صحابیِ رسول  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیتِ کریمہ (لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ) تَرجَمۂ کنزُالایمان : بیشک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے۔ ([i]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) کا نُزول ہوا تو میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی : یارسولَ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !میں بھی ان میں سے ہوں جنہوں نےاس پیڑ کے نیچےآپ کی بیعت کی ہے ، سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اے ابو اُمامہ! تم مجھ سے ہو  اور میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ([ii])

پیارے اسلامی بھائیو! حضرت سیّدُنا ابو اُمامہ  رضی اللہ عنہ کا اصل نام صُدَی بن عَجْلان ہے لیکن اپنی کنیت و قبیلہ کی نسبت سے حضرت ابو اُمامہ باہِلِی کے نام سے مشہور ہیں۔ ([iii]) خواب میں دودھ سے سیراب ہوئے : جناب رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو آپ کی قوم باہِلہ میں اسلام کی تبلیغ کرنے کے لئے بھیجا ، جب آپ اپنے قبیلے میں پہنچے تو وہاں کے لوگ حرام غذا کھا رہے تھے ، انہوں نے آپ کو کھانے کی پیشکش کی مگر آپ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اس کھانے سے تمہیں منع کرنے آیا ہوں اور میں پیارے رسولِ عربی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلَّم کا قاصد ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ تم ان پر ایمان لے آؤ ، یہ دیکھ کر قوم نے آپ کو جھٹلایا اور جھڑک دیا ، آپ  رضی اللہ عنہ  بھوکے پیاسے وہاں سے چل پڑے اور ایک جگہ بہت زیادہ تھک ہار کر سو گئے ، خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتے نے دودھ سے بھرا ہوا برتن آپ کے ہاتھ میں تھما دیا جسے آپ نے جی بھر کرپیا۔ دوسری جانب قبیلے کے کچھ لوگوں نے قوم کو ملامت کی : اپنے ہی قبیلےکا ایک معزز آدمی گاؤں میں آیا اور تم نے اسے واپس کردیا۔ یہ سُن کر قبیلے والوں کو سخت ندامت ہوئی ، لہٰذا کھانا پانی لے کر آپ کے پاس پہنچے تو آپ  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا : مجھے تمہارے کھانے اور پانی کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے مجھ کو تو میرے پاک پروردگار اللہ نے کھلا پلاکر سیراب کردیا ہے اور پھر اپنا خواب بیان کردیا۔ قبیلے والوں نے آپ  رضی اللہ عنہ  کی حالت دیکھی   اور غور و فکر کیا کہ واقعی آپ کھا پی کر سیراب ہوچکے ہیں ( تو نہایت متأثر ہوئے) اور کلمہ پڑھ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔ ([iv]) بکثرت روزے رکھتے : ایک مرتبہ آپ  رضی اللہ عنہ  بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض گزار ہوئے : مجھے کسی نیک کام کا حکم فرما دیجئے ، ارشاد فرمایا : روزے کو لازم پکڑ لو ،  اس کی مثل کوئی عمل نہیں ، اس کے بعد سے آپ اور آپ کی اہلیہ ، کنیز اور غلام سبھی روزےرکھا کرتے تھے یہاں تک کہ دن کے وقت آپ  رضی اللہ عنہ  کے گھر میں کھاناپکتا یا دھواں نکلتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ آپ  رضی اللہ عنہ  کے گھر میں کوئی نہ کوئی مہمان ضرور ٹھہرا ہے کہ جس کے لئے کھانا پک رہا ہے۔ آپ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رَبِّ جلیل کے فضل و کرم سے میرا اس پر عمل رہا لہٰذا ایک بار پھر بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوا : یَارسولَ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! آپ نے روزہ رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا تھا اب اللہ پاک نے میرے لئے اس میں برکت رکھ دی ہے لہٰذا مجھے دوسرے عمل کے بارے میں بھی حکم فرما دیجئے ، ارشاد فرمایا : تم اللہ کے لئے ایک سجدہ کروگے تو وہ تمہارا ایک درجہ بلند کرے گا اور ایک خطا مٹادے گا۔ ([v]) سائل خالی ہاتھ نہ جاتا : آپ  رضی اللہ عنہ  غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں پر خوب صَدَقہ خیرات کرتے تھے ان کے لئے دِرہم و دِینار اور کھانے پینے کی چیزیں جمع کرکے رکھتے یہاں تک کہ صَدَقہ کے لئے جب کوئی چیز نہ ملتی تو پیاز ، کھجور یا اسی کی مثل کم قیمت کی کوئی چیز سائل کے ہاتھ پر رکھ دیتے اور اسے خالی ہاتھ جانے نہ دیتے تھے۔ خیر ہی خیر : ایک مرتبہ آپ  رضی اللہ عنہ  کے پاس صرف تین دینار تھے ، دروازے پر سائل آیا تو آپ نے اسے ایک دینار دے دیا ، پھر دوسرا سائل آیا تو اسے بھی ایک دینار دے دیا پھر تیسرا سائل آیا تو اسےآخری دینار بھی دے دیا۔ یہ دیکھ کر خادمہ نے عرض کی : آپ نے ہمارے لئے تو کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ اس کے بعد آپ  رضی اللہ عنہ  سوگئے ظہر کے وقت خادمہ نے آپ کو جگایا تو آپ  رضی اللہ عنہ  وُضو کرکے مسجد کی طرف چل پڑے ، خادمہ کہتی ہیں : مجھے آپ پر بڑا ترس آیا کہ آپ روزہ دار ہیں (اور گھر میں کچھ بھی نہیں ہے ) اس لئے میں نے کسی سے قرض لیا اور رات کے لئے کھانا تیار کرلیا پھر (وقتِ مناسب پر) آپ  رضی اللہ عنہ  کے لئے چراغ روشن کردیا ، پھر بستر ٹھیک کرنے کے لئے آئی تو وہاں تین سو دینار پڑے ہوئے دیکھے۔ خادمہ مزید کہتی ہیں : جب آپ  رضی اللہ عنہ  عشاء کی نماز کے بعد گھر میں تشریف لائے اور بچھے ہوئے دسترخوان اور روشن چراغ کو دیکھا تو مسکرا دیئے اور فرمانے لگے : یہ اللہ کریم کی طرف سے خیر ہی خیر ہے۔ میں ان کے کھانا کھانے تک وہیں کھڑی رہی پھر میں نے عرض کی : اللہ پاک آپ پر رحم فرمائے آپ بے توجہی میں ان دیناروں کو چھوڑ کر چلے گئے اور مجھے بتایا بھی نہیں کہ میں ان کو اٹھا لیتی۔ آپ  رضی اللہ عنہ  نے حیران ہوکر پوچھا : کیسے دینار؟ میں تو گھر میں کچھ بھی  چھوڑ کر نہیں گیا۔ یہ سُن کر میں نے آپ  رضی اللہ عنہ  کا بستر اٹھادیا ، آپ  رضی اللہ عنہ  ان دیناروں کو دیکھ کر  بہت خوش ہوئے اور اس پر بڑے حیران بھی ہوئے۔ ([vi]) علم کی کرنیں پھیلادو : آپ  رضی اللہ عنہ  سے250 احادیثِ کریمہ مروی ہیں جن میں سے صحیح بخاری شریف میں پانچ  اور صحیح مسلم شریف میں تین  مذکورہیں۔ ([vii]) آپ  رضی اللہ عنہ  لوگوں کو جمع کرتے اورعلم ِدین کی نورانی محفل سجایا کرتے تھے جس میں احادیثِ رسول بیان کرتے ، سنتِ نبوی پر عمل پیرا ہونے کا ذہن دیتے ، پیارے آقا محمدِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری پیاری اداؤں اور حُلیہ مبارکہ کو بیان کرتے اور محبتِ رسول کے جام بھر بھر کر پلایا کرتے تھے۔ ([viii]) آپ  رضی اللہ عنہ  پیارے آقا ومولیٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی کثیر احادیث روایت کرتے اور شاگردوں سے فرماتے جاتے : توجہ سے سنو اور اچھی طرح سمجھو پھر اسے آگے پہنچاتے جاؤ۔ ([ix]) سلام کو عام کرو : تابعی بزرگ حضرت محمد بن زیاد الھانی  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابو اُمامہ باہلی  رضی اللہ عنہ  کا ہاتھ پکڑا اور ان کے ساتھ ان کے گھر کی جانب چلنے لگا ، راستے میں جو بھی مسلمان بچّہ یا بڑا قریب سے گزرتا تو حضرت ابو اُمامہ باہلی  رضی اللہ عنہ  اسے سلام ضرور کرتے ، گھر کے دروازے پر پہنچ کر آپ  رضی اللہ عنہ  نے ارشاد فرمایا : ہمیں رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حکم ارشاد فرمایا ہے کہ ہم سلام کو عام کریں۔ ([x]) وصال مبارک : حضرت سیّدُنا ابو اُمامہ صُدَی بن عجلان باہِلِی  رضی اللہ عنہ  نے 81یا 86ہجری میں91 برس کی طویل عمر پاکر شام کے شہر حِمص کے ایک دوراُفتادہ گاؤں “ دَنوہ “ میں وصال فرمایا۔ ([xi]) آپ  رضی اللہ عنہ  ملک شام میں وصال فرمانے والے آخری صحابیِ رسول ہیں۔([xii])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* مُدَرِّس مرکزی جامعۃالمدینہ ،  عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی



([i])پ26 ، الفتح : 18

([ii])تاریخ ابن عساکر ، 24 / 61

([iii])الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ، 3 / 339

([iv])معجم کبیر ، 8 / 286 ، حدیث : 8099ملخصاً

([v])مسند احمد ، 8 / 269 ، حدیث : 22202

([vi])حلیۃ الاولیاء ، 10 / 134ملخصاً

([vii])تھذیب الاسماء واللغات ، 2 / 468

([viii])تاریخ ابن عساکر ، 3 / 300 ملخصاً

([ix])سنن دارمی ، 1 / 146 ، رقم : 544 ، سیر اعلام النبلاء ، 4 / 458

([x])تاریخ ابن عساکر 24 / 67۔ ابن ماجہ ، 4 / 200 ، حدیث : 3693

([xi])تاریخ ابن عساکر ، 24 / 75

([xii])تاریخ ابن عساکر ، 24 / 59


Share