حضرت عبد اللہ  ابنِ عباس رضی اللہُ عنہما

کم سِن صحابَۂ کرام

حضرت عبداللہ بن عباس   رضی اللہ عنہما

*مولانا اویس یامین عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست2023

اللہ پاک کے آخری نبی ، مکی مدنی ، محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صحابی ہونا ایک بہت بڑا مقام و مرتبہ ہے ، سیرت کی کتابیں صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کے حالات و واقعات سے بھری ہوئی ہیں ، سلسلہ ”کم سِن صحابَۂ کرام“ میں اُن مبارک ہستیوں کا ذکر کیا جائے گا جو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں پیدا ہوئیں ، جنہیں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت و صحبت نصیب ہوئی اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُن پر عنایتیں فرمائیں۔ آئیے ! ان میں سے ایک ہستی کے بارے میں پڑھ کر اپنے دلوں کو محبتِ صحابہ کے نور سے روشن کرتے ہیں۔

مختصر تعارف

حضرت عبداللہ بن عباس   رضی اللہ عنہما  رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور اُمُّ المؤمنین حضرت میمونہ  رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت ہجرتِ مدینہ سے 3سال قبل شعبِ ابی طالب میں ہوئی۔[1]جہاں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے خاندان اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ محصور  تھے اور اہلِ مکہ نے اسلام کی تبلیغ کی وجہ سے مکمل بائیکاٹ کررکھا تھا۔

بعدِ ولادت کرم نوازی

آپ رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں :  ( جب میں پیدا ہوا تو )  مجھے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک کپڑے میں لپیٹ کر لایا گیا تو حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے لُعاب مبارک  ( یعنی بابرکت تھوک )  سے مجھے گھٹی دی۔[2]

علم و حکمت کی5 دعائیں

 ( 1 ) ایک موقع پر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ رضی اللہ عنہ کو اپنے سینے سے لگایا اور یہ دعا دی : اَللّٰهُمَّ عَلِّمْهُ الحِكْمَةَ یعنی اے اللہ ! اسے حکمت کا علم عطا فرما ۔[3]

 ( 2 ) ایک روایت میں ہے کہ یہ دعا دی : اَللّٰهُمَّ عَلِّمْهُ الكِتَابَ یعنی اے اللہ ! اسے کتاب کا علم عطا فرما۔[4]

 ( 3 ) آپ فرماتے ہیں کہ ایک بار رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیتُ الخلا میں گئے تو میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے وُضو کا پانی رکھا ، حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے  ( بیتُ الخلا سے نکل کر پانی رکھا دیکھا تو )  معلوم کیا کہ یہ کس نے رکھا ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو میرا بتایا گیا تو آپ نے یوں دعا دی : اَللّٰهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ یعنی اے اللہ ! اسے دین کا فقیہ بنا دے۔[5]

 ( 4 ) ایک مرتبہ حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا دستِ اقدس آپ کے سر پر رکھا اور یہ دعا فرمائی : اَللّٰهُمَّ اَعْطِهِ الْحِكْمَةَ وَعَلِّمْهُ التَّاْوِيلَ یعنی اے اللہ ! اسے حکمت اور تفسیر کا علم عطا فرما۔ پھر اپنا مبارک ہاتھ آپ کے سینے پر رکھا تو آپ نے اس کی ٹھنڈک اپنی پیٹھ میں محسوس کی ، پھر دُعا کی : اَللّٰهُمَّ احْشُ جَوْفَه حُكْمًا وَعِلْمًا یعنی اے اللہ ! اس کا سینہ علم و حکمت سے بھر دے۔ اس کی برکت ایسی ظاہر ہوئی کہ آپ رضی اللہ عنہ کبھی لوگوں کے کسی سوال کا جواب دینے میں نہ گھبرائے اور تاحیات حِبْرُ هَذِهِ الْاُمَّة یعنی اس اُمت کے بہت بڑے عالم کے لقب سے نوازے گئے۔[6]

 ( 5 ) پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ رضی اللہ عنہ کے لئے خیرِ کثیر کی دُعا کی اور ارشاد فرمایا : تم قراٰنِ کریم کے کتنے اچھے تَرجُمان  ( یعنی تفسیر بیان کرنے والے )  ہو۔[7]

خالہ جان کے گھر میں کیوں رکے ؟

 آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں رات کو اپنی خالہ حضرت میمونہ  رضی اللہ عنہا کے گھر اس لئے رکا کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رات کی نماز دیکھوں گا ، حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سو گئے یہاں تک کہ آدھی رات یا اس سے کچھ آگے پیچھے بیدار ہوئے ، اپنے چہرے کو اپنے ہاتھ سے ملتے ہوئے بیٹھ گئے اور پھر سورۂ اٰلِ عمرٰن کی آخری 10آیتیں پڑھیں۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک لٹکی ہوئی مَشک[8]  کی طرف گئے ، اس سے اچھی طرح وُضو کیا اور نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن عباس   رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں کہ میں بھی اٹھا اور جس طرح حُضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کیا تھا میں نے بھی اسی طرح کیا اور جاکر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دایاں ہاتھ میرے سَر پر رکھا اور مجھے سیدھے کان سےپکڑکر[9]اپنی دائیں جانب کرلیا۔ نماز کے بعد آپ آرام فرما ہوئے یہاں تک کہ مؤذن آپ کے پاس آیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دو رکعتیں پڑھیں اور پھر نمازِ فجر کے لئے چلے گئے۔[10]

اپنے ساتھ سوار فرمایا

آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا ، جب میں دُرست ہوکر بیٹھ گیا تو حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین بار اللہ اَکبر ، تین بار اَلحمدُلِلّٰہ ، تین بار سُبحٰنَ اللہ اور ایک بار لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ پڑھا۔[11]

روایت حدیث

آپ رضی اللہ عنہ نے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی 1660احادیث بیان کی ہیں۔[12]

وصال

رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وفاتِ ظاہری کے وقت آپ رضی اللہ عنہ تقریباً 13 سال کے تھے۔[13]آپ رضی اللہ عنہ نے 71 سال کی عمر میں 68ھ میں طائف میں وفات پائی۔[14]

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] معجم کبیر ، 10 / 233 ، رقم : 10566

[2] معجم کبیر ، 10 / 233 ، رقم : 10566

[3] بخاری ، 2 / 548 ، حدیث : 3756

[4] بخاری ، 1 / 44 ، حدیث : 75

[5] بخاری ، 1 / 73 ، حدیث : 143

[6] معجم کبیر ، 10 / 237 ، رقم : 10585

[7] معجم کبیر ، 11 / 67 ، حدیث : 11108- حلیۃ الاولیاء ، 1 / 391 ، حدیث : 1120

[8] چمڑے کی تھیلی جس میں پہلے وقتوں میں پانی بھر کر رکھا جاتا تھا

[9] حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کان پکڑنا بطورِ سزا و سختی نہ تھا بلکہ ازراہِ محبّت و شفقت تھا جیسا کہ ہم لوگ بھی اپنے چھوٹے بچوں کا کان ہلکا سا پکڑ کر کچھ سمجھاتے یا پیارکرتے ہوئے سینے سے لگاتے ہیں۔ خود حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ”میں جان گیا تھا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ اس لئے کیا کہ رات کے اندھیرے میں مجھے اُنسیت ملے۔“ ( فتح الباری ، 3 / 419 ، تحت الحدیث : 992 )

[10] بخاری ، 1 / 86 ، حدیث : 183 3 / 199 ، حدیث : 4570ملخصاً

[11] مسند احمد ، 1 / 707 ، حدیث : 3058

[12] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 457

[13] معجم کبیر ، 10 / 233 ، ، رقم : 10567

[14] الاصابۃ فی معرفۃ الصحابہ ، 4 / 131۔


Share