سونو بکرا

ذُوالحج کا چا ند نظر آتے ہی نَنّھے میاں نے ایک ہی رَٹ لگالی تھی کہ بس گھر میں اس دفعہ بکرا میری پسند کا آئے گا ، دو دن کے بعد ننھے میاں اپنے ابو اور چاچو کے ساتھ جاکر ایک سفید رنگ کا  پیارا ، گول مٹول سااور چھوٹے قَد کا بکرا لے آئے ، ننھے میاں نے گھر میں آتے ہی اس کا نام “ سونُو “ رکھ دیا ، ننھے میاں کی پسند اور نام  سب گھر والوں کو پسند آیا ، ننھے میاں تو بکرے کی خدمت میں لگ گئے ، فوراًسونو کے آگے گھاس اور پانی رکھ دیا ، سونو نے بھی خاموشی سے سَر جُھکالیا اور گھاس کھانے اور پانی پینے لگا ، سونو اب ننھے میاں کا دوست بن گیا تھا ، ننھے میاں اس کی کمر اور سَر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ، چاچو کے ساتھ مل کر اس کےآگےروزانہ  دانہ پانی رکھتے اور شام کے وقت گھمانے بھی لے جاتے تھے ، عید سے ایک دن پہلے دادی جان نے اچانک ننھے میاں سے کہا : ننھے میاں ! کل آپ کا پیارادوست  سونو اللہ پاک کی راہ میں قُربان ہوجائے گا ، ننھے میاں یہ سُن کر اَفْسُردَہ ہوگئے اور کہنے لگے : دادی کیا  ایسا نہیں ہوسکتاکہ  ہم سونو کی جگہ  کسی اور بکرے کی قربانی کردیں؟ مگر کیوں ؟ دادی نے پوچھاتو ننھے میاں کہنے لگے : دادی ! یہ میرا دوست بَن گیا ہے اور مجھے بہت اچھا لگتا ہے ہم اسے گھر میں ہی رکھ لیتے ہیں ، دادی ننھے میاں کی بات سمجھ گئیں پھر پوچھنے لگیں : اچھا ! آپ یہ بتائیے ہم بڑی عید کو جانور قربان کیوں کرتے ہیں؟ دادی سب قربانی کرتے ہیں اس لئے ہم بھی قربانی کرتے ہیں ، ننھے میاں کو جو جواب سمجھ آیا انہوں نے دے دیا ، نہیں میرے بچے! یہ وجہ نہیں ہے ،  اللہ پاک کے  ایک نبی  حضرت ابراہیم   علیہِ السَّلام   اپنے بیٹے حضرت اسماعیل   علیہِ السَّلام   سے بہت پیار کرتے تھےتین راتوں تک حضرت ابراہیم   علیہِ السَّلام   نے خواب دیکھا کہ کوئی ان سے کہہ رہا ہے : بے شک اللہ تمہیں اپنے بیٹے کو قربان  کرنے کا حُکم دیتا ہے ، ننھے میاں! حضرت اسماعیل   علیہِ السَّلام   کی عمر اس وقت 7یا 13 سال یا اس سے تھوڑی زیادہ تھی حضرت ابراہیم   علیہِ السَّلام   نے اپنے بیٹے کو خواب بتایا تو وہ کہنے لگے : آپ وہی کریں  جس کا آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیاگیا ہے۔ آپ مجھےصبر کرنے والوں  میں  پائیں  گے۔ شیطان نے پہلے حضرت  ابراہیم   علیہِ السَّلام   کو وَسْوَسَہ ڈالا کہ اپنے بیٹے کو قربان نہ کریں ، لیکن حضرت ابراہیم   علیہِ السَّلام   نے اس کی بات نہ مانی  تو وہ حضرت اسماعیل   علیہِ السَّلام   کی امی جان کے  پاس آیا  انہوں نے بھی شیطان کی بات نہ مانی ، پھروہ حضرت اسماعیل  علیہِ السَّلام   کو بہکانے لگاتو انہوں نے کہا : اگر میرے ابو جان اللہ پاک کے حکم پر مجھے قربان  کرنے لے جارہے ہیں توبہت اچھا کر رہے ہیں۔ دادی! پھر کیا حضرت ابراہیم   علیہِ السَّلام   نے اپنے پیارے بیٹے کو قربان کردیا؟ ننھے میاں درمیان میں بول پڑے ، دادی نے کہا : حضرت ابراہیم   علیہِ السَّلام   نے جیسے ہی حضرت اسماعیل   علیہِ السَّلام   کو زمین پر لٹا کر ان کے گلے پر چھری چلائی تو چھری نے اپنا کام نہ کیا یعنی گلا نہ کاٹا ایک آواز آئی : “ اے ابراہیم بےشک تو نے خواب سچ کردکھایا ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔ “ ادھر اللہ پاک کے حکم سے حضرت جبرئیل   علیہِ السَّلام   جنّت سے ایک دُنبہ لے آئے اور دُور سے اُونچی آوازمیں کہا : اَللّٰہُ اَکْبَر  اَللّٰہ ُاَکْبَر ، جب  حضرت ابراہیم   علیہِ السَّلام   نے یہ آواز سُنی تو اپنا سَر آسمان کی طر ف اٹھایا اور جان گئے کہ اللہ پاک  کی طرف سے آنے والی آزمائش کا وقت گزر چکا ہے اور بیٹے کی جگہ اب اس دنبے کوقربانی کےلئے بھیجا گیا ہے اس کے بعد اس دنبے کو قربان  کردیا گیا۔                                 (صراط الجنان ، 8 / 332 تا 335 ، بیٹا ہو تو ایسا ، ص2تا 14 ملخصاً) 

ننھے میاں دیکھا آپ نے! حضرت ابراہیم   علیہِ السَّلام   نے اللہ پاک کے حکم کے آگے اپنا سَر جھکادیا اور پیارے بیٹے کو بھی قربان کرنے سے پیچھے قَدَم نہیں ہٹایا ، ان کی قربانی اور جذبہ ہمیں سمجھاتا ہے کہ ہم بھی اللہ کی راہ میں اپنی پیاری چیز خوشی خوشی قربان کریں ۔ دادی جان ! اب مجھے سمجھ میں آگیا ہے کہ مجھے بھی اپنا پیارا “ سونو “ اللہ پاک کو خوش کرنے کیلئے قربان کرنا چاہئے ، ننھے میاں نے سَر ہلاتے ہوئے کہا تو دادی نے پوچھا : اور اس بکرے کی کھال کا کیا کریں گے؟ ننھے میاں نے فورا ً کہا : جس طرح پچھلے سال بکرے کی کھال دعوتِ اسلامی کو دی تھی اسی طرح اس سال بھی کھال دعوتِ اسلامی کو دیں گے۔ دادی نے خوش ہوکر ننھے میاں کو اپنے سینے سے لگالیا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی

 


Share

Articles

Comments


Security Code