رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بّچوں کی تربیت کاانداز / فتاویٰ رضویہ کی10خصوصیات / باادب بانصیب

نئے لکھاری

رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچّوں کی تربیت کا انداز

ماہنامہ صفر المظفر1442ھ

بچّوں کو مستقبل کا معمار کہا جاتا ہے۔ بچّوں کی اچھے انداز میں تربیت اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے ، اس کے لئے سرکار ِدوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا بچّوں کی تربیت کا انداز     کیسا تھا     یہ جاننا بھی ضروری ہے۔ حضرت معاویہ بن حکم  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں : میں نے نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے پہلے اور بعد آپ سے بڑھ کر بہترین تعلیم دینے والا نہیں دیکھا۔ ([i])

نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنی شفقت ، مَحبّت ، حُسنِ سلوک اور نرمی و حکمت بھرے انداز سے بچّوں کی تربیت کا بھی خاص اہتمام فرمایا ، نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ڈانٹنے سے اجتناب فر ماتے چنانچہ حضرت انس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں : میں نے دس سال نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت میں گزارے مگر نہ تو کبھی آپ مجھ پر ناراض ہوئے اور نہ کبھی مجھے ڈانٹا بلکہ یہ بھی نہ فرمایا کہ یہ کام تو نے کیوں کیا؟ یا کیوں نہ کیا؟ ۔ ([ii])

نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اچھی باتو ں کی تر غیب دلاتے ، ایک بار حضرت انس  رضی اللہ عنہ  سے فرمایا : اے میرے بیٹے! اگر تم سے ہوسکے تو صبح و شام ایسے رہو کہ تمہارے دل میں کسی کی طرف سے کینہ نہ ہو ، اے میرے بیٹے! یہ میری سنّت ہے اور جس نے میری سنّت سےمَحبّت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنّت میں ہوگا۔ ([iii])

آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  دستر خوان پر بچّوں کو ساتھ بٹھاتے اور انہیں کھانے پینے کے آداب سکھاتے۔ اگر کوئی بِسْمِ اللہ شریف پڑھے بغیر کھانا شروع کردیتا تو آپ نرمی سے فرماتے بِسْمِ اللہ شریف پڑھ کر کھانا کھاؤ اسی طرح اگر کوئی بچّہ دوسرے کے سامنے سےکھانے لگتا تو آپ اسے پیار سے فرماتے : بیٹا! کھانا اپنے سامنے سے کھانا چاہئے۔ ([iv])

اپنے مبارک افعال کے ذریعے بھی بچّوں کی تربیت فرماتے چنانچہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  بچّوں کو سلام کرنے میں پہل کیا کرتے([v]) تاکہ انہیں سلام میں پہل کرنے کی عادت ہوجائے۔ آپ نے بچّوں کے بارے میں  فریا کہ وہ بڑوں کو سلام کرنے میں پہل کیا کریں۔ ([vi])

جب کوئی بچّہ غلط کام کرتا تو سرکارِ مدینہ ، قرارِ قلب و سینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اسے شفقت و نرمی سے سمجھاتے ، اس کے حق میں دعا بھی فرماتے ، ممنوعات سےمنع فر ماتے۔ ایک صحابی  رضی اللہ عنہ  بچپن میں مدینہ شریف کے باغوں میں جایا کرتے اور کھجور کے درختوں پر پتھر مار کر کھجوریں گِرا کر کھجور کھاتے ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے نرمی سے فرمایا : پتھر مت مارا کرو البتہ جو کھجوریں پک کر نیچے گر جاتی ہیں ، انہیں کھا لیا کرو۔ (وہ صحابی فرماتے ہیں) پھر آپ نے محبت سے میرے سَر پر ہاتھ پھیرا اور میرے حق میں دعا فرمائی : “ اے اللہ !اس کا پیٹ بھر دے۔ “ ([vii])

اللہ پاک ہمیں اچھے انداز میں اصلاح کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اُمِّ حمزہ بنتِ اکرم(جامعۃ المدینہ فیض ِمکہ  کراچی )

 



([i])مسندامام احمد ، 9 / 196 ، حدیث : 23823

([ii])حضور کی بچوں سے محبت ، ص48 ، بحوالہ بخاری ، 2 / 247 ، حدیث : 2768 ، 4 / 110 ، حدیث : 6038

([iii])ایضا ، ص 49 ، بحوالہ ترمذی ، 4 / 310 ، حدیث : 2687

([iv])ایضاً ، ص51 ، بخاری ، 3 / 521 ، حدیث : 5376ماخوذاً

([v])ایضاً ، ص51 ، بخاری ، 4 / 170 ، حدیث : 6247

([vi])ایضا ً ، ص51 ، بخاری ، 4 / 167 ، حدیث : 6234ماخوذاً

([vii])ایضاً ، ص50 ، ابوداؤد ، 3 / 56 ، حدیث : 2622 ماخوذاً


Share

رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بّچوں کی تربیت کاانداز / فتاویٰ رضویہ کی10خصوصیات / باادب بانصیب

نئے  لکھاری

فتاویٰ رضویہ کی10 خصوصیات

ماہنامہ صفر المظفر1442ھ

اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ نے تصنیفی میدان میں کم و بیش ایک ہزار (1000) کتب تصنیف فرمائیں۔ آپ  رحمۃ اللہ علیہ کی جس کتاب کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہےوہ آپ  رحمۃ اللہ علیہ کے فتاویٰ جات پر مشتمل بنام “ اَلْعَطَایَا النَّبَوِیَّہ فِی الفَتَاوَی الرَّضَوِیَّہ “ ہے۔ اس علمی خزانے کی صرف دس خصوصیات پیش کی جاتی ہیں : (1)ضخامت : جدید تخریج کے بعد تیس (30) جلدوں پر مشتمل فتاویٰ رضویہ تقریباً بائیس ہزار (22000) صفحات ،  چھ ہزار آٹھ سو سینتالیس (6847) سوالات و جوابات اور دو سو چھ (206) تحقیقی رسائل کا مجموعہ ہے جبکہ ہزاروں مسائل ضمناً زیرِ بحث آئے ہیں۔ (2)خطبہ بے مثال : فتاویٰ رضویہ کے ابتدائی خطبہ میں اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ  نے نوّے (90) اسمائے   ائمہ و کتبِ فقہ کو بطورِ براعتِ اِستہلال (علمِ بدیع کی ایک صنعت کا نام) استعمال کرتے ہوئے اس انداز سے ایک لَڑی میں پرو دیا کہ اللہ پاک کی حمد و ثنا بھی ہوگئی اور ان اسمائے مقدّسہ سے تبرّک بھی حاصل ہوگیا۔  (3) اُسلوبِ تحقیق : فتاویٰ رضویہ میں اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ کسی مسئلہ کی تحقیق میں پہلے لغوی معنی ، اصطلاحی تعریف ، تقسیم ، پھر بحث سے متعلق قسم کا تعین ، پھر زیرِ بحث قسم کا حُکمِ شرعی بیان کرتے ہوئے قراٰن ، حدیث اور اجماع ہو تو نقل کرنے کے بعد اختلاف کی صورت میں مذاہبِ ائمہ ورنہ حنفی مسلک کو بیان کرتے ہوئے ائمہ ، مشائخ اور اصحابِ فتویٰ کے اقوال نقل کرتے ہیں۔ (4)مرجع عوام و علما : فتاویٰ رضویہ کے سائلین میں عوامُ النّاس  کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کے بڑے بڑے علما و فضلا ، محدثین و فقہا شامل تھے ، جو پیچیدہ مسائل کے حل کے لئے اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ کی طرف رجوع فرماتے۔ (5)عقائدِ اہلِ سنّت کا دِفاع : فتاویٰ رضویہ میں فقہی تحقیقات کے علاوہ عقائدِ اہلِ سنّت کے دِفاع میں بھی کئی رسائل شامل ہیں ، جن کے ذریعے اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ نے اہلِ سنّت کے عقائد کی دُرست تصویر پیش کی۔ (6)مُعتمَد عَلَیہ فتاویٰ : فتاویٰ رضویہ فقہ حنفی کا مستنَد فتاویٰ ہے۔ علما و مفتیانِ کرام   فتویٰ دینے میں دیگر کتابوں کے ساتھ ساتھ اس علمی ذخیرے کی طرف بھی رجوع فرماتے ہیں۔ (7)متعدّد علوم کا جامع : فتاویٰ رضویہ صرف فقہی مسائل پر ہی مشتمل نہیں بلکہ دیگر بیسیوں علوم و فنون کا بھی عظیم مجموعہ ہے ، جن میں حدیث ، تفسیر ، علمُ الکلام ، سائنس ، توقیت ، ریاضی ، منطِق ، فلسفہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ (8)دلائل کے انبار : دلائل و اِستشہادات کی جو کثرت فتاویٰ رضویہ میں ہے اس کی صرف ایک جھلک “ لَمْعَۃُ الضُّحٰی فیِ اِعْفَآءِ اللُّحٰی “ جیسا تحقیقی فتویٰ ہے۔ اس رسالہ میں 18 آیات ،  72 احادیث اور  60 ارشاداتِ علما وغیرہ کل ڈیڑھ سو نُصُوص کے ذریعے اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مشت داڑھی کا واجب ہونا ثابت فرمایا۔ (9)جواب بمطابق سوال : سائل کا سوال جس زبان میں ہو فتاویٰ رضویہ میں اسی زبان میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔ (10)تاریخی نام : فتاویٰ رضویہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے رسائل کے نام تاریخی ہوتے ہیں جن کے ذریعے ان رسائل کا سنِّ تحریر نکالا جاسکتا ہے۔

ہمیں چاہئے کہ ہم بھی کتبِ اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ کا حتّی الامکان مطالعہ کریں ، اللہ پاک توفیق دے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اگلوں نے تو لکھا ہے بہت علمِ دین پر                                  جو کچھ ہے اس صدی میں وہ تنہا رضا کا ہے

محمد دانش عطاری (درجہ ثالثہ ، جامعۃُ المدینہ فیضانِ بُخاری موسیٰ لین کراچی)


Share

رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بّچوں کی تربیت کاانداز / فتاویٰ رضویہ کی10خصوصیات / باادب بانصیب

نئے لکھاری

باادب بانصیب

ماہنامہ صفر المظفر1442ھ

انسانی زندگی کے شب و روز کے اعمال مثلاً رہن سہن ، میل جول اور لین دین کے عمدہ اصول و ضوابط کو آداب کہا جاتا ہے۔

ان آداب کی پابندی سے ہی انسان تہذیب یافتہ اور شائستہ لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ قراٰنِ مجید میں حضرت موسیٰ  علیہ السَّلام  اور جادوگروں کا واقعہ بیان کیا گیا۔ ) قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ(۱۱۵) (تَرجَمۂ کنزُالایمان : بولے اے موسیٰ یا تو آپ ڈالیں یا ہم ڈالنے والے ہوں۔ ([i])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیرِ صِراطُ الجنان میں ہے کہ جادوگروں نے حضرت موسیٰ  علیہ السَّلام  کا یہ ادب کیا کہ آپ کو مقدّم کیا اور آپ کی اجازت کے بغیر اپنے عمل میں مشغول نہ ہوئے ، اس ادب کا عوض انہیں یہ ملا کہ اللہ پاک نے انہیں ایمان و ہدایت کی دولت سے سرفراز فرما دیا۔ ([ii])

* تمام نبیوں کے سرور ، حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : اے اَنس! بڑوں کا ادب و احترام اور چھوٹوں پر شفقت کرو ، تم جنّت میں میری رفاقت پالو گے۔ ([iii])

* مشہور فقہی امام ، عاشقِ رسول حضرتِ سَیّدُنا امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  نے 17برس کى عمر سے ہی دَرسِ حدیث دینا شروع کردیا تھاحالانکہ 17سال کی عمر میں تقریباً جوانى کا آغاز ہی ہوتا ہے۔ جب حدىثِ پاک سنانى ہوتى تو پہلے غسل کرتے ، چوکى یعنی مسند بچھائى جاتى اور آپ عمدہ لباس پہن کر خوشبو لگا کر نہایت عاجزى کے ساتھ اپنے مُبارَک کمرے سے باہر تشرىف لا کر اس چوکی پر بااَدب بىٹھتے۔ دَرسِ حدىث کے دَوران کبھى پہلو نہ بدلتے جىسے ہم لوگ بیٹھے بیٹھے کبھی ٹانگ اونچى کرتے ہیں اور کبھی نىچے تو امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  دَرسِ حدىث کے دَوران کبھى پہلو نہ بدلتے تھے۔ جب تک اس مجلس مىں اَحادىثِ مُبارَکہ پڑھى جاتىں تو انگىٹھى مىں عُود اور لوبان سلگتا رہتا ، خوشبو آتی رہتى۔ ([iv])

* اسی طرح ہمارے اسلافِ کرام بھی ادب کو اپنی زندگی کا حصہ بنا چکے تھے۔ “ اَلخَیراتُ الحِسان “ میں ہے : حضرت امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  زندگی بھر اپنے استاذِ محترم سیِّدُنا امام حمّاد  رحمۃ اللہ علیہ  کے مکانِ عَظَمت نشان کی طرف پاؤں پھیلا کر نہیں لیٹے حالانکہ آپ  رحمۃ اللہ علیہ  کے مکانِ عالی شان اور استاذِ محترم  رحمۃ اللہ علیہ  کے مکانِ عظیمُ الشّان کے درمِیان تقریباً سات گلیاں پڑتی تھیں۔ ([v])

کسی دانا کا قول ہے : مَا وَصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلَّا بِالْحُرْمَۃِ یعنی جس نے جو کچھ پایا اَدب واحترام کرنے کےسبب ہی پایا ۔ ([vi])

ادب وہ انمول چیز ہے کہ جس کی تعلیم خود ربِّ کائنات نے اپنے مدنی حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو ارشاد فرمائی چُنانچہ نبیِّ اکرم ، نورِ مجسم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : اَدَّبَنِيْ رَبـِّيْ فَاَحْسَنَ تَاْدِيْبِـيْ یعنی مجھے میرے ربّ نے ادب سکھایا اور بہت اچّھا ادب سکھایا۔ ([vii])

مشہور کہاوت ہے کہ “ با ادب با نصیب “ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دِل و جان سے اللہ پاک کے ولیوں کا ادب بجالائے کیونکہ ادب انسان کو دنیا و آخرت میں کامیابیاں اور عزّت و شہرت دلواتا ہے۔

بنتِ عبدالجبار بلوچ عطاریہ مدنیہ

 (جامعۃ ُالمدینہ فیض ِمکہ کراچی)



([i])پ 9 ، الاعراف : 115

([ii])صراط الجنان ، 3 / 404

([iii])شعب الایمان ، 7 / 458 ، حدیث : 10981

([iv])الروض الفائق ، ص 213 ، الشفا ، 2 / 45 ، بستان المحدثین ، ص19

([v])الخیرات الحسان ، ص 82

([vi])راہِ علم مترجم ، ص29

([vii])جامع صغیر ، ص25 ، حدیث : 310


Share