دودھ میں ملاوٹ

دودھ انسان کی پہلی خوراک بنتا ہے۔جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں کا دودھ اسے وہ غذائیت دیتا ہے جو اس کی نشو و نُما کے لئے ضروری ہوتی ہے، پھر جب بچہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو بھینس، گائے اور بکری وغیرہ کا دودھ اسےبڑھاپے تک توانائی دیتا ہے۔ اللہُ رَحْمٰن کی شان دیکھئے کہ حیوان جو چارہ کھاتا ہے دودھ اور خون اسی سے بنتا ہے جبکہ بقیہ حصہ گوبر میں تبدیل ہوجاتا ہے لیکن دودھ میں خون اور گوبر کا رنگ دکھائی دیتا ہے نہ کوئی بُو آتی ہے بلکہ وہ صاف وشفاف ہوتا ہے ۔

دودھ ہماری ضرورت ہے:دودھ میں 10 سے زیادہ غذائی اجزا ،معدنیات،حیاتین، پروٹینز، نشاستہ اور  چکنائیاں پائی جاتی ہیں، یہ اجزا ایک صحت مند جسم کے لیے لازمی خیال کئے  جاتے ہیں اور مُختلف بیماریوں سے ہماری حفاظت کرتے ہیں جبکہ دودھ کا استعمال نہ کرنے کی وجہ سےمعدنی اجزا کی کمی کے سبب دانتوں، ہڈیوں، پٹھوں، آنتوں وغیرہ کےمسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔

فی زمانہ دودھ چار طریقوں سےہم تک پہنچتا ہے : (1) کھلا دودھ،جو گوالوں کے ذریعے پہنچتا ہے، ہمارے ملک کی اکثریت یہ دودھ استعمال کرتی ہے (2) ٹیٹراپیکنگ ،یہ دودھ گتے کے ایسے ڈبوں میں فروخت ہوتا ہے جن کی اندرونی سائیڈ پر دھات کی باریک تَہ چڑھی ہوتی ہے (3)بوتل یا پلاسٹک کی مضبوط تھیلیوں میں (4) خشک دودھ۔

کیا ہم خالص دودھ پیتے ہیں؟زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب دودھ میں پانی کی ملاوٹ چوری چُھپےہوتی تھی لیکن پانی ملانے کو بہت بُرا اور معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن اب دودھ میں جوکچھ ملایا جاتا ہے اسے دیکھ کر تو کسی نے یہاں تک کہہ ڈالا:’’ پانی ملانے والا تو ان کے مقابلے میں شریف معلوم ہوتا ہے۔‘‘

جعلی دودھ کی تیاری کا انکشاف : بعض لوگ دودھ کے نام پر کیا سپلائی کرتے ہیں!بطورِ نمونہ صرف ایک خبر ملاحظہ کیجئے چنانچہ گوجرانوالہ میں 24 اقسام کے مُضرِ صحت کیمیکلز کے آمیزے سے تیار کئے جانے والے جعلی دودھ کی فروخت کا انکشاف ہوا ہے ، فوڈ اتھارٹی گوجرانوالہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے بتایا کہ جعلی دودھ کی تیاری کرنے والے گروہوں نے دیہاتی علاقوں میں اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ جعلی دودھ کے لیبارٹری ٹیسٹ سے معلوم ہوا ہے کہ گوالے اور جعلساز  یوریا کھاد ،چاک پاؤڈر ،کیمیکل ،سوڈیم کاربو نائٹ ،گندا پانی ،فارمولین اور دیگر کیمیکلز سے جعلی دودھ تیار کرتے ہیں جو کئی روز تک پڑا رہتا ہے۔ جعلی دودھ کو محفوظ رکھنے اور بدبو سے بچانے کیلئے سوڈیم کاربونائیٹ،ڈیٹرجنٹ پاوڈر ،خشک دودھ ،صابن کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ طویل عرصہ محفوظ رکھنے کیلئے فارمولین ڈالاجاتا ہے۔ (دنیا اخبارآن لائن 5جنوری 2017)

دودھ کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے؟ ایک تحقیق کے مطابق دودھ میں پہلی ملاوٹ گوالہ کرتا ہے‘بعض گوالے بھینس کو انجکشن لگاتے ہیں جس کے فوری بعدوہ دودھ دے دیتی ہے اور یہ دودھ مقدار میں زیادہ بھی ہوتا ہے، اس دودھ میں انجکشن کا اثر بھی شامل ہوجاتا ہے جو بچوں کی صحت کے لئے نہایت نقصان دہ ہوتا ہے۔اس کے بعد چھوٹی مشینوں کے ذریعے دودھ سے کریم نکال کر اس کا مکھن اور دیسی گھی بنا کر مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے۔ اب جو پتلا دودھ بچتا ہے،اس میں ڈیٹرجنٹ پاؤڈر ڈالا جاتا ہے تاکہ دودھ گاڑھاہوجائے،اس سے دودھ میں جھاگ بھی بن جاتی ہے،پھر اس پاؤڈر کی کڑواہٹ ختم کرنے اور دودھ کو چمکدار بنانے کے لئےبلیچنگ پاؤڈر شامل کردیا جاتا ہے۔اس کے بعد گوالے یہ دودھ بڑے بیوپاریوں کو بیچ دیتے ہیں۔ بعض ظالم بیوپاری اس میں مزید ایسےخطرناک کیمیکلز ملادیتے ہیں جو دودھ کو خراب ہونے سے تو محفوظ رکھتے ہیں لیکن صحت کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں ،ان میں سے ایک فارمولین بھی ہے جسے لاشوں کو محفوظ رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔پھر یہ دودھ ہوٹلوں‘ چائے خانوں‘ مٹھائی بنانے والوں، دودھ دہی کی دکانوں،بسکٹ بنانے والے کارخانوں اور گھروں پر سپلائی کیا جاتا ہے،وہ دودھ جسے قدرت نے صحت بخش ،لذیذ اور توانائی سے بھرپور بنایاتھا ،بعض انسانوں نے ہم تک پہنچنے سے پہلے ہی اسے کیمیکل زَدہ اور نقصان دِہ بنادیا ۔

دوسرے نمبر پر ٹیٹرا پیک دودھ آتا ہے ،اس کے لیے دودھ کو کم وبیش135 سینٹی گریڈ تک اُبالا جاتا ہے، یہ درجہ حرارت دودھ کو زیادہ عرصے تک محفوظ تو کردیتا ہے لیکن غذائیت کا خاتمہ کردیتا ہے کیونکہ دودھ سفید پانی بن جاتاہے  جسے  دوبارہ دودھ کی شکل دینے کے لئے اس میں خشک دودھ ، پام آئل ، فارمولین اور دیگر چیزیں ملائی جاتی ہیں ،یہ ملاوٹ بلڈ پریشر اور دل کے امراض کا سبب بنتی ہے۔

تیسرے نمبر پربوتل اور لفافے کا دودھ آتا ہے،یہ دودھ کم وبیش 85 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے اور یہ دو سے تین دن تک قابل استعمال رہتا ہے لیکن مبیّنہ طور پرکیمیکلز اور دیگر پاؤڈراس میں بھی شامل کئے جاتے ہیں ۔

چوتھانمبرخشک دودھ کاہے۔  ماہرین کے نزدیک اس کو دودھ کہنا ہی غلط ہے کیونکہ یہ پاؤڈر،چینی اور نامعلوم کیمیکلز کا مرکب ہوتا ہے ،جسے خوبصورت پیکنگ میں بیچا جاتا ہے۔  کئی لوگ اس دودھ کی چائے بڑے شوق سے پیتے ہیں۔ خشک دودھ کالی چائے کو سفید کردیتا ہے لیکن جسم کے کئی حصوں کو داغدار کر دیتا ہے۔وَاللہُ اَعْلَمُ بِحَقِیْقَۃِ الْحَالِ

ججوں کے تاثرات: جون2016ء ميں لاہور ہائیکورٹ میں دودھ میں ملاوٹ کے حوالے سے مقدمہ دائر کیا گیا جس کے نتیجے میں ججز نےلیبارٹری سے دودھ کی چیکنگ کروانے کا آڈردیا۔ لیبارٹری نے رپورٹ دی کہ کھلے دودھ کے علاوہ ڈبہ بند دودھ میں بھی  ڈیٹرجنٹ پاوڈر اور کیمیائی مادے ملائے جاتے ہیں۔ یہ رپورٹ دیکھ کر ججوں نےاپنے تاثرات دئیے: زہریلا دودھ پلا کر شہریوں کو مارنے کی کوشش نہ کی جائے ،کورٹ بچوں کو زہریلا دودھ پلانے کی اجازت نہیں دے گی۔

دل نہیں مانتا:اگر کوئی کہے کہ دل نہیں مانتاکہ انسان اتنا گر بھی سکتا ہے کہ وہ دودھ میں اس طرح کی خطرناک چیزیں ملائے، تو اخباری اور لیبارٹری رپورٹس اور ججوں کے تاثرات آپ پڑھ چکےہیں، مزید تسلی کے لئے خود کسی لیبارٹری سے اپنے گھر آنے والا دودھ چیک کروالیں۔ ہمارا یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ ہر دودھ بیچنے والا ایسا کرتا ہے یا جو دودھ آپ تک پہنچتا ہے وہ ملاوٹ والا ہےلیکن حالات آپ کے سامنے ہیں،آئے روز خبریں چھپتی ہیں کہ لاہور شہر میں ناکے لگا کر موقع پر دودھ چیک کیا گیا اور کیمیکل ملا دودھ تلف کردیا گیا ، سوچئے ! اگر اوپر بیان کی گئی خبروں میں آدھا سچ بھی ہے تو ہم کیا پی رہے ہیں ؟ دودھ یا کچھ اور!

ملاوٹ کرنے والے ہوش کے ناخن لیں!جوکوئی اس طرح کی خطرناک ملاوٹیں کرکے مسلمانوں کی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے ،اسے یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہئے کہ وہ دنیا کو دھوکا دے سکتا ہے ،اپنا جرم ربِِّ عَلیم عزوجل سے نہیں چھپا سکتا۔ ایسے لوگ دنیا میں چار پیسے کمانے میں کامیاب ہوبھی جائیں تو کیاحاصل! جب آخرت ہی داؤ پر لگ گئی ۔ بے شک رب کی گرفت بہت سخت ہے،اس گرفت میں آنے سے پہلے پہلے توبہ کرلینے میں بھلائی ہے۔

خالص دودھ کیسے ملے؟دودھ ہماری ضرورت بھی ہے، اب خالص دودھ کہاں سے ملے؟موجودہ حالات میں تو اس کا سب سے مُؤثر حل یہی نظر آتا ہے کہ آدمی خود گھر میں بھینس پال لے یا چند افراد مل کر بھینس رکھ لیں مگر یہ ہر ایک کے لئے آسان نہیں ہے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ بھینسوں کے باڑے سے براہ ِراست دودھ خریدا جائے جو آپ کی نظروں کے سامنے دودھ نکالے اور ہاتھوں ہاتھ آپ کو دے دے، اس میں کچھ زیادہ رقم دے کر بھینسوں کے مالک کو راضی کیا جاسکتا ہے ۔ جسے اپنی صحت عزیز ہو اسے راستہ مل ہی جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان اور صحت کی حفاظت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ


Share

دودھ میں ملاوٹ

  تیسری صدی  عیسوی کے ویلنٹائن نامی پادری کو بادشاہ کی نافرمانی پر جیل میں ڈالا گیا،جیل میں پادری اور جیلر کی لڑکی کے مابین عشق ہوگیا، بادشاہ کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے پادری کو پھانسی دینے کا حکم صادر کر دیا،چنانچہ  14 فروری کو اس پادری کو پھانسی دیدی گئی ا س کے بعد سے ہر 14 فروری کو یہ محبت کا دن اس پادری کے نام ویلنٹائن ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس تہوار کو منانے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے پردگی و بے حیائی کےساتھ میل ملاپ، تحفے تحائف کے لین دین اور فحاشی و عریانی کی ہر قسم کا مظاہرہ کھلے عام یا چوری چھپے  کرتے ہیں۔حدیث شریف میں ہے:’’تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی گھونپ دی جائے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لئے حلال نہیں۔‘‘(معجمِ کبیر،ج20،ص211، حدیث:486) عاشق و معشوق کےآپس میں تحائف دینے کے متعلق فقہ کی کتاب’’ بحرالرائق ‘‘میں ہے:’’عاشق ومعشوق (ناجائز محبت میں گرفتار) آپس میں ایک دوسرے کو جو (تحائف) دیتے ہیں وہ رشوت ہے،ان کا واپس کرنا واجب ہے اور وہ ملکیت میں داخل نہیں ہوتے۔‘‘(بحر الرائق،ج6،ص441) لہٰذاان کا آپس میں گفٹ لینا اور دینا دونوں ہی ناجائز وحرام ہے،اگر کسی نے یہ تحائف لئے ہیں تو اس پر توبہ کے ساتھ ساتھ یہ تحائف واپس کرنا بھی لازم ہے۔(ملخص از ویلنٹائن ڈے،ص،11،12،19،23)

مزید تفصیل کے لیے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘رسالے (مطبوعہ مكتبة المدينه)کا مطالعہ فرمائیں۔


Share

Articles

Gallery

Comments


Security Code