کیا کوئی منحوس ہوسکتاہے؟

ایک بادشاہ اور اس کے ساتھی شکار کی غرض سے جنگل کی جانب چلے جارہے تھے۔ جونہی بادشاہ شہر کی فَصِیل (چار دیواری) کے قریب پہنچا اس کی نگاہ سامنے آتے ہوئے ایک آنکھ والے شخص پر پڑی جو راستے سے ہٹنے کے بجائے بڑی بے نیازی سے چلا آرہا تھا۔اسے سامنے آتا ہوا دیکھ کر بادشاہ غصے سے چیخا:” اُف! یہ تو بڑی بَدشگونی ہے، کیا اس منحوس کوپتا نہیں تھا کہ جب بادشاہ کی سواری گزررہی ہو تو راستہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔“ بادشاہ سپاہیوں کی جانب مُڑا اور غصے سے چیخا:”اس ایک آنکھ والے شخص کو باندھ دیا جائے ،ہم واپسی پر اس کی سزا تجویز کریں گے۔“سپاہیوں نے اس شخص کو فوراً رسیوں سے باندھ دیا۔ بادشاہ کے خدشات کے برعکس اس روز شکار بڑا کامیاب رہا۔ وزیر نے جانوروں اور پرندوں کو گنتے ہوئے کہا:”واہ! آج تو آپ کا شکار بہت خوب رہا، کیا نگاہ تھی اور کیا نشانہ!“ جب شام ڈھلے بادشاہ شہر کے قریب پہنچا توا س شخص کو رسیوں میں جکڑا ہوا پایا۔بادشاہ کی سواری کے پیچھے پیچھے شکار کئے ہوئے جانوروں اور پرندوں سے بھری سواری بھی چلی آرہی تھی جسے دیکھ کر بادشاہ اور اس کے ساتھی خوشی سے پھولے نہ سَمارہے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ شخص زور دار آواز میں بادشاہ سے مخاطب ہوا:کہیے بادشاہ سلامت! ہم دونوں میں سے کون منحوس ہے، میں یا آپ؟ یہ سنتے ہی سپاہی اس شخص کے سر پر تلوار تان کر کھڑے ہوگئے لیکن بادشاہ نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ وہ شخص بلا خوف پھر مخاطب ہوا:کہیے بادشاہ سلامت! ہم میں سے کون منحوس ہے ”میں یا آپ؟“ میں نے آپ کو دیکھا تو رسیوں میں بندھ کر چِلچلاتی دھوپ میں دن بھر جلتا رہا جب کہ مجھے دیکھنے پرآپ کو آج خوب شکار ہاتھ آیا۔ یہ سن کر بادشاہ نادِم ہوا اور اس شخص کو فوراً آزاد کردیا اور بہت سا مال بھی دیا۔ کیا کوئی منحوس ہوسکتا ہے؟ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اسلام میں کسی شخص، جگہ، چیز یا وَقْت کو منحوس جاننے کا کوئی تصوُّر نہیں یہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں۔ میرے آقااعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن بدشگونی کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:شرعِ مطہر میں اس کی کچھ اصل نہیں، لوگوں کا وہم سامنے آتا ہے۔ شریعت میں حکم ہے: اِذَا تَطَیَّرْتُمْ فَامْضُوْا یعنی جب کوئی شگونِ بَدگمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو۔ مسلمانوں کو ایسی جگہ چاہئے کہ ”اَللّٰہُمَّ لَاطَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ، وَلَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ، وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ(اے اﷲ!نہیں ہے کوئی بُرائی مگر تیری طرف سے اور نہیں ہے کوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے سِوا کوئی معبود نہیں)پڑھ لے اور اپنے رب (عَزَّوَجَلَّ) پر بھروسا کرکے اپنے کام کو چلا جائے، ہرگزنہ رُکے، نہ واپس آئے۔ وَاﷲُ تعالٰی اَعْلَمُ (فتاویٰ رضویہ،ج 29،ص641 ملخصاً) شیطانی کام رسولِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشادفرمایا: اَلْعِیَافَۃُ وَالطِّیَرَۃُ وَالطَّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ یعنی اچھا یا بُراشگون لینے کے لئے پرندہ اُڑانا، بَدشگونی لینااور طَرْق (یعنی کنکر پھینک کر یا ریت میں لکیر کھینچ کر فال نکالنا) شیطانی کاموں میں سے ہے۔ (ابوداؤد،ج 4،ص22، حدیث: 3907) بَدشگونی حرام اور نیک فال لینا مستحب ہے حضرت سیّدنا امام محمد آفندی بِرکلی علیہ رحمۃ اللہ الوَلی اَلطَّرِیْقَۃُ الْمُحَمَّدِیَۃ“ میں لکھتے ہیں: بَدشگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مُسْتَحَب ہے۔(طریقہ محمدیہ،ج2،ص17،24) اچھے بُرے شگون کی مثالیں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اچھی فال کو پسند فرماتے تھے۔(مسنداحمد،ج 9،ص450، حدیث: 25036) اچھے شگون کی مثال یہ ہے کہ ہم کسی کام کوجارہے ہوں، کسی نے پکارا: ”یارَشِید (یعنی اے ہدایت یافتہ)“، ”یاسَعِید (یعنی اے سعادت مند)“، ”اے نیک بَخت“ ہم نے خیال کیا کہ اچھا نام سُنا ہے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کامیابی ہوگی جبکہ بَدشگونی کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص سفر کے اِرادے سے گھر سے نکلا لیکن راستے میں کالی بلی راستہ کاٹ کر گزر گئی ، اب اس شخص نے یہ یقین کرلیا کہ اس کی نُحوست کی وجہ سے مجھے سفر میں ضَرورکوئی نقصان اُٹھانا پڑے گا اور سفر کرنے سے رُک گیا تو سمجھ لیجئے کہ وہ شخص بَدشگونی میں مبتلا ہوگیا ہے۔ بَدشگونی کے بھیانک نتائج بَدشگونی کا شکار ہونے والوں کا اللہ عَزَّوَجَلَّ پر اِعتماد اور توکُّل کمزور ہوجاتاہے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں بَدگمانی پیداہوتی ہے ٭تقدیر پر ایمان کمزور ہونے لگتا ہے ٭شیطانی وَسْوَسوں کا دروازہ کھلتاہے ٭ بَدفالی سے آدمی کے اندر توہُّم پرستی، بُزدلی، ڈر اور خوف، پَست ہمتی اور تنگ دلی پیدا ہوجاتی ہے ٭ناکامی کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں مثلاً کام کرنے کا طریقہ دُرُست نہ ہونا، غَلَط وَقْت اور غَلَط جگہ پر کام کرنا اور ناتجربہ کاری لیکن بَدشگونی کا عادی شخص اپنی ناکامی کا سبب نُحوست کو قرار دینے کی وجہ سے اپنی اِصلاح سے محروم رہ جاتا ہے ٭بَدشگونی کی وجہ سے آپس کی ناچاقیاں جنم لیتی ہیں جن کے سبب رشتے ناطے ٹوٹ جاتے ہیں ٭جو لوگ اپنے اوپر بَدفالی کا دروازہ کھول لیتے ہیں انہیں ہرچیز منحوس نظر آنے لگتی ہے، ایک شخص صبح سویر ے اپنی دکان کھولنے جاتاہے راستہ میں کوئی حادثہ پیش آیا تو سمجھ لیتاہے کہ آج کا دن میرے لئے منحوس ہے لہٰذا آج مجھے نقصان ہوگا یوں ان کا نظامِ زندگی درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے ٭کسی کے گھر پراُلّو کی آواز سن لی تو اِعلان کردیا کہ اس گھر کا کوئی فرد مرنے والا ہے یا خاندان میں جھگڑا ہونے والاہے، جس کے نتیجے میں اس گھروالوں کے لئے مصیبت کھڑی ہوجاتی ہے ٭نیا ملازم اگر کاروباری ڈِیل نہ کرپائے اور آرڈر ہاتھ سے نکل جائے تو فیکٹری مالک اسے منحوس قرار دے کر نوکری سے نکال دیتا ہے ٭نئی دلہن کے ہاتھوں اگر کوئی چیز گِرکر ٹُوٹ پُھوٹ جائے تو اس کو منحوس سمجھاجاتاہے اور بات بات پر اس کی دل آزاری کی جاتی ہے۔ ماہِ صفر کو منحوس جاننا بَدشگونی لینا عالَمی بیماری ہے، مختلف ممالک میں رہنے والے مختلف لوگ مختلف چیزوں سے ایسی ایسی بَدشگونیا ں لیتے ہیں کہ انسان سُن کر حیران رہ جاتا ہے۔ نُحوست کے وہمی تصورات کے شکارلوگ ماہِ صفرکو مصیبتوں اور آفتوں کے اُترنے کا مہینا سمجھتے ہیں خصوصاً اس کی ابتدائی تیرہ تاریخیں جنہیں ”تیرہ تیزی“ کہا جاتا ہے بہت منحوس تصوُّر کی جاتی ہیں۔ وہمی لوگوں کا یہ ذہن بنا ہوتا ہے کہ صفر کے مہینے میں نیا کاروبار شروع نہیں کرناچا ہئے نقصان کا خطرہ ہے، سفرکرنے سے بچنا چاہئے ایکسیڈنٹ کا اندیشہ ہے، شادیاں نہ کریں، بچیوں کی رخصتی نہ کریں گھر برباد ہونے کا امکان ہے وغیرہ۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کوئی وَقْت بَرَکت والا اور عظمت و فضیلت والا تو ہوسکتا ہے جیسے ماہِ رمضان، ربیعُ الاوّل، جمعۃُ المبارک وغیرہ مگر کوئی مہینا یا دن منحوس نہیں ہوسکتا۔ نبیِّ کریم، رؤف رَّحیم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صفرُ المظفر کے بارے میں وہمی خیالات کو باطِل قرار دیتے ہوئے فرمایا: ”لَا صَفَرَصفر کچھ نہیں۔(بخاری،ج 4،ص 24، حدیث: 5707) حضرت علّامہ شاہ عبد الحق محدث ِدہلوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: عوام اسے (یعنی صفر کے مہینے کو) بلاؤں، حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا وَقْت قرار دیتے ہیں، یہ عقیدہ باطِل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔(اشعۃ اللمعات (فارسی)،ج 3،ص664)

یہ مضمون مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ”بدشگونی“ سے ماخوذ ہے، تفصیلات کیلئےیہ کتاب مکمل پڑھئے۔ یہ کتاب دعوت اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net سے ڈاؤنلوڈ اور پرنٹ آؤٹ بھی کی جاسکتی ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مدیر(Chief Editor)ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code