بزرگانِ دین کی بہادری/ اللہ کے پیارے

ننّھا زبیر اور زینب رات کو سونے کے لئے ابھی بستر پر لیٹے ہی تھے کہ اچانک ایک زوردار آواز آئی اور پورے علاقے کی بجلی چلی گئی، جیسے ہی اندھیرا چھایا تو زینب خوف زدہ ہوکر اپنی امّی سے چِمٹ گئی اور سہمے سہمے انداز میں کہنے لگی:’’امی جان بُھوت! امی جان بُھوت!‘‘خیر کچھ ہی دیر میں نوید صاحب بھی گھر آگئے، ابوجان کو دیکھ کر زینب فوراً ان کی آغوش میں چلی گئی۔ زینب کو اپنے والد کی آمد سے کچھ اطمینان تو ضرور حاصل ہوا مگر وہ ابھی تک خوف زدہ تھی۔ دوسری طرف زینب کا غیر معمولی رویہ دیکھ نوید صاحب کو بھی تشویش ہوئی۔ نوید صاحب کے پوچھنے پر زینب کی والدہ نے بتایا کہ گزشتہ روز میں نے بچّوں کو ڈراؤنی کہانی (Horror Story)سنائی تھی شاید اسی لئے لائٹ جانے پر یہ خوف زدہ ہوگئی۔ نوید صاحب زینب سے کہنے لگے: بیٹا!ہم مسلمان ہیں اور مسلمان تو بہادر ہوتے ہیں، وہ اللہ پاک کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی بہت بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ شریف کے لوگوں نے کوئی خوفناک آواز سنی، لوگ اس آواز کی طرف دوڑے تو انہوں نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس جگہ سے واپس آتے ہوئے پایا جہاں سے یہ خوفناک آواز آئی تھی۔ (کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو کائنات میں سب سے زیاد بہادر ہیں، آپ لوگوں سے پہلے اس آواز کی طرف تشریف لے گئے تھے) اور اس وقت آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرمارہے تھے: ” ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے، ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔“ (بخاری،ج2،ص284،حدیث:2908)

رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابۂ کرام بھی بہت بہادر تھے ، ایک مرتبہ راستہ میں ایک شیر بیٹھا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کا راستہ روکا ہوا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کے قریب جا کر ارشاد فرمایا کہ راستہ سے ہٹ جا۔ آپ کی یہ ڈانٹ سُن کر شیر دُم ہلاتا ہوا راستے سے ہٹ گیا اور دور بھاگ گیا۔(حجۃ اللہ علی العالمین،ص616) زینب یہ واقعات سُن کر کافی پُرسکون اور مطمئن نظر آرہی تھی۔

والدین متوجہ ہوں! امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ارشاد فرماتے ہیں: ”بھوت پری کی کہانیاں بچّوں کو بُزدل (ڈرپوک) بناتی ہیں۔ ہمارے بچّے شیر کی طرح بہادر ہونے چاہئیں۔“ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اپنے بچّوں کو بھوت وغیرہ کی خوفناک کہانیاں(Horror Stories) سنانے کے بجائے اَسلاف کے بہادری کے قصّے سنائیں۔

اللہ کریم ہماری اولاد کوہمت وبہادری کی دولت سے مالا مال فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭۔۔۔ماہنامہ فیضانِ مدینہ،باب المدینہ کراچی


Share

بزرگانِ دین کی بہادری/ اللہ کے پیارے

اتوار کے دن سب گھر والے بیٹھے ہوئے شام کی چائے پی رہے تھے کہ امّی نے آصف سے پوچھا: بیٹا! جمعہ کے دن آپ کے اسکول میں پروگرام (Program) تھا، اس کے بارے میں آپ نے کچھ بتایا نہیں؟ آصف: امّی! بہت اچّھا رہا، اس دن کا پروگرام پوری زندگی یاد رہے گا۔ یہ الفاظ سُن کر زینب فوراً بول اٹھی: بھیَّا! ہمیں بھی تو کچھ پتا چلے آخر اس ایونٹ (Event) میں کیا ہوا تھا۔ آصف: اس پروگرام میں بیان کے لئے دعوتِ اسلامی کے ایک مفتی صاحب کو بلایا گیا تھا، جن کے بیان کا عنوان (Topic) تھا اللہ کے پیارے“۔عنوان کے ساتھ ساتھ ان کا سمجھانے کا انداز بھی بڑا دلچسپ (Interesting) تھا۔ زینب: وہ کیسے؟ آصف:وہ یوں کہ انہوں نے ابتدا میں ہم سب طلبہ کے سامنے ایک سُوال رکھا کہ اپنے دل سے اس بات کا جواب لیں کہ ”اے دل! کیا ہم اللہ کے محبوب اور پیارے بندے ہیں؟“ آصف کا سُوال سُن کر اس کے چھوٹے بھائی راشد نے کہا: یہ کیسے پتاچلے گا کہ ہم اللہ کے محبوب اور پیارے ہیں؟ آصف: جی بالکل! ہم نے بھی ان سے یہی سوال کیا تھا۔ ابّو: بیٹا! پھر انہوں نے کیا جواب دیا؟ آصف: ابّوجان!جواب میں انہوں نے محبوبِ الٰہی (اللہ کا پیارا) ہونے کی کچھ نشانیاں (Signs) بیان کیں جو مجھے پوری یاد تو نہیں لیکن میں نے انہیں اپنی ڈائری میں لکھ لیا تھا وہاں سے پڑھ کر سناتا ہوں۔پھر آصف اپنی ڈائری کھول کر پڑھتے ہوئے بولا کہ وہ چند نشانیاں یہ ہیں: (1)مسلمان ہونا (2)نرم مِزاج اور مہربان ہونا (3)دین و دنیا کی تکلیفوں پر صبر کرنا (4)لوگوں کی خدمت و مدد کرنا، ان کی پریشانیوں کو حل کرنا (5)اچّھے اَخلاق والا ہونا (6)موت آنے سے پہلے اس کی تیاری کرنا (7)دل میں دنیا کی مَحبت کا نہ ہونا (8)آخری علامت جو انہوں نے بیان کی وہ یہ تھی کہ اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی گزارنا۔ اس علامت کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اللہ کے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں پر عمل کرنے میں شروع کی تمام چیزوں پر بھی عمل ہوجائے گا گویاکہ یہ علامت ان سب کو شامل ہے۔ امّی: بیٹاآصف! اللہ پاک کا بڑا احسان ہے کہ ہم سب مسلمان ہیں، اگر ہم اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں پر عمل کرنا شروع کردیں تو یقیناً اللہ کے پیارے بندے بَن جائیں گے۔ آصف:امّی جان! ہمیں آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں کے بارے میں کیسے پتا چلے گا؟ امّی:اس کے لئے دین کا علم حاصل کرنا ہوگا، اور آج کے دور میں اگرچہ بہت سے لوگ دین کے بارے میں راہنمائی (Guide) کرتے ہیں مگر بیٹا! سچ بتاؤں تو مجھے دعوتِ اسلامی والوں کا انداز بڑا اچّھا لگتا ہے۔ زینب:وہ کیوں؟ امّی: کیونکہ یہ لوگ زمانہ کے اعتبار سے دین کے مختلف موضوعات (Topics) کو پیار بھرے لہجے میں آسان سے آسان کرکے سمجھاتے ہیں اور ساتھ ساتھ انہوں نے بہت سے شارٹ کورسز(Short courses) بھی ترتیب دیئے ہوئے ہیں۔ آصف: امّی!یہ سب معلومات آپ کو کہاں سے ملیں؟ امّی:یہ سب دعوتِ اسلامی کے مدنی چینل کی برکت ہے۔ اس دور میں ان نیک لوگوں کی صحبت نصیب ہونا اللہ کی بڑی نعمت ہے، آپ سب بھی اپنی پوری زندگی ان لوگوں سے دُور نہ ہونا۔ زینب، آصف اور چھوٹا راشد: ضَرور امّی جان۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭۔۔۔مدرس جامعۃالمدینہ ،فیضانِ کنزالایمان باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code