ضد

بچپن(Child Hood) انسانی زندگی کا ایک خوبصورت مَرْحَلہ (Stage)ہے جس کے دوران بچّے کی درست تربیَت اور اس کی بُری عادات کی اَحسن انداز میں اصلاح آنے والی زندگی میں اسے مُعاشرے(Society) کا ایک مُفید فرد بناتی ہے۔اس کے برعکس بچپن میں والدین کی لا پروائی بچّوں کو بے جا لاڈ پیار اور ان کی بُری عادات سے چَشْم پوشی(یعنی گرفت نہ کرنے) کا نتیجہ مستقبل(Future) میں بچّوں اور ان کے متعلقین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بے جا ضد کے نقصانات بچّوں کی مختلف قابلِ اصلاح عادات میں سے ایک بے جا ضد اور ہَٹ دھرمی بھی ہے۔ یوں تو عُموماً بچّے ضدّی ہوتے ہیں لیکن بعض بچّوں میں یہ خَصلت بہت زیادہ ہوتی ہے۔بچّوں کی ضد والدین کے لئے اس وقت شرمندگی اور نَدامت کا باعث بن جاتی ہے جب مہمانوں یا میزبانوں کی موجودگی میں نیز گھر سے باہر لوگوں کے سامنے وہ کسی بات پر ضد شروع کردیں اور پوری نہ ہونے پر رونے دھونے یا زمین پر لَوٹ پوٹ ہونے کا سلسلہ شروع ہوجائے۔ایسے موقَع پر جس خِفَّت و شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسے وہی سمجھ سکتا ہے جو اس آزمائش سے گزر چکا ہو۔ضد کی اقسام بچّوں کی ضد کی بنیادی طور پردو قسمیں کی جاسکتی ہیں: (1)جس کا پورا کرنا شرعا ًناجائز ہے (2)جسے پورا کرنے کی شرعاً مُمانَعَت نہیں۔ ناجائز ضد بچّہ اگر کسی ایسی بات پر بَضِد ہے جو شرعاً ناجائز و گناہ ہے تو اسے پورا کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں مثلاً مُرَوَّجہ ناجائز کارٹون، ویڈیو گیم یا موسیقی (Music) والے کھلونے وغیرہ کی فرمائش۔ نابالغ بچّہ اگرچہ احکامِ شریعت کا مُکَلَّف نہیں لیکن ایسی ضد پوری کرنے والے والدین گناہ گار ہوں گے۔ایسی ضد پوری کروا نے والا بچّہ آگے چل کر غیرشرعی اُمور کے اِرْتِکاب میں بے باک (بے خوف)ہوسکتا ہےلہٰذا حکمتِ عَمَلی سے کام لیتے ہوئے کوئی بھی ایسا راستہ نکالئے کہ ناجائز ضِد پوری کئے بغیر بچّہ قابو میں آجائے۔ جائز ضد اگر بچّہ کسی ایسی بات کی ضد کررہا ہے جسے پورا کرنے میں شرعی مُمانَعَت نہیں تو موقَع محل (Situation) کے اعتبار سے عمل کرنا چاہئے۔

یاد رکھئے! بچّے کی ہر جائز ضد کوفوراً پور ا کردینا یا پھر اس کی ہر فرمائش کو مُسْتَرد (Reject) کردینا دونوں ہی نامناسب ہیں۔حکمتِ عملی کے ساتھ وقتاً فوقتاً بچّے کی جائز ضد کو پورا کیجئے لیکن اسےانکار سننے کا عادی بھی بنائیے۔ہر جائز ضد کو پورا کردینا بھی بچّوں کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

مدنی مَشورہ بچّوں کے جائز مطالَبات کی تکمیل کو اگر”مدنی فیس“یعنی مختلف نیکیاں کرنے کے ساتھ مشروط کردیا جائے تو اُمّید ہے کہ اس بہانے بچّوں کی اچّھی تربیَت بھی ہوتی رہے گی۔مثلاً:اگر آپ کو کھانے کی فلاں چیز چاہئے تو روزانہ 50بار دُرود شریف پڑھئے، جُھولا جُھولنے جانا ہے تو پہلے اتنے دن تک پانچوں نمازیں ادا کیجئے، فلاں کھلونا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اتنے دن روزانہ 26منٹ مدنی چینل دیکھئے وغیرہ ، اورپھر ”مَدَنی فیس“ملنے پر اپنا وعدہ پورا کیجئے۔اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّیوں غیرمحسوس طریقے سے بچّے مختلف نیک اعمال کے عادی بنتے جائیں گے۔اے ہمارے پیارےاللہ کریم!ہمیں اپنی اولاد کی درست تربیَت کرنے اور انہیں اپنے لئے ثوابِِ جارِیہ کا ذریعہ بنانے کی توفیق عطا فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share

ضد

پرنسپل صاحب معمول (Routine) کے مطابق اسکول کے راؤنڈ پر تھے۔ جب وہ آٹھویں کلاس کے قریب سے گزرے تو کلاس میں طَلَبہ (Students) ایک دوسرے کی طرف چیزیں پھینک رہے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ کلاس کے اندر چلے گئے۔ سب طَلَبہ پرنسپل صاحب کو دیکھتے ہی فوراً ادب سے کھڑے ہوگئے۔ پرنسپل صاحب مانیٹر کون ہے؟ میں ہوں، علی رضا نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ پرنسپل صاحب علی رضا! آپ کلاس مانیٹر ہیں، آپ کے ہوتے ہوئے یہ سب کیا ہورہا ہے؟ اگر کوئی باہَر سے وزٹ ((Visit کرنے آیا ہوتا اور آپ لوگوں کو اس حالت میں دیکھ لیتا تو کیا سوچتا؟ علی رضا جناب! میں نے انہیں روکا تھا لیکن یہ باز نہیں آئے، اور یہ بول کر مجھے چپ کروادیا کہ کلاس میں ٹیچر موجود نہیں ہیں، اس لئے آپس میں مذاق ہی تو کر رہے ہیں، لڑائی نہیں کررہے۔ پرنسپل صاحب مذاق کب اصل لڑائی بَن جاتا ہے پتا بھی نہیں چلتا۔ کچھ ہی عرصہ پہلے یہاں اَرشَد اور بلال نام کے دو اسٹوڈنٹ پڑھتے تھے۔ پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے اچّھے دوست بھی تھے۔ دونوں ایک ساتھ اسکول آتے جاتے، بریک کے وقت ایک ساتھ کھاتے پیتے تھے۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آپس میں فرینڈ شپ (Friendship) بھی بڑھتی گئی۔ ایک دن بریک کے وقت دونوں کھانے میں مصروف تھے کہ بلال کو مذاق کی سُوجھی۔ کسی بہانے سے کلاس رُوم سے باہَر گیا اور پانی کا بھرا ہوا گلاس لاکر اَرشَد کے اُوپر ڈال دیا۔ اَرشَد کہاں پیچھے رہنے والا تھا سامنے رکھی ہوئی کھانے کی چیزیں اُٹھاکر بلال کو دے ماریں، جس سے اس کا یونیفارم ) (Uniform خراب ہوگیا۔ یہ دیکھ کر بلال کو غصّہ آگیا اور اس نے اَرشَد سے لڑنا شروع کردیا۔ مذاق سے شروع ہونے والی اس لڑائی میں اَرشَد کی آنکھ میں زور سے پین لگ گیا جس سے اس کی آنکھ سے خون بہنا شروع ہوگیا۔ اسکول کی طرف سے اَرشَد کو فوراً اسپتال بھیجا گیا، چیک اپ (Checkup) اور ٹیسٹ کے بعد معلوم ہوا کہ اَرشَد کی وہ آنکھ ضائع ہوچکی ہے۔ وقاص پھر ان دونوں کے ساتھ کیا ہوا؟ پرنسپل صاحب ان دونوں کو اسکول سے نکال دیا گیا۔ پیارے بچّو ہمیشہ کے لئے یاد رکھو! اگرکلاس (Classroom) میں ٹیچر نہ ہوں تو لڑائی کرنا، ایک دوسرے کا مذاق اُڑانا، چیزیں ایک دوسرے کی طرف پھینکنا اس طرح کے کام ہر گز نہ کیا کریں۔ ایسا نہ ہو کہ پھر مذاق میں اَرشَد کی طرح کسی اور کی آنکھ ضائع ہوجائے۔ حمزہ سر! فارغ پیریڈ میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ پرنسپل صاحب اس فارغ وقت کو قیمتی جانتے ہوئے اپنے پچھلے اَسباق پڑھ لیا کریں، علمی گفتگو کیا کریں، اپنی جنرل نالج (General knowledge) ایک دوسرے سے شیئر (Share) کیا کریں اور اللہ پاک کا ذِکر کرکے، دُرود شریف پڑھ کر اپنے وقت کو مزید قیمتی بنایا جاسکتاہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا کام کیا کریں جو علمی اعتبار سے آپ کے لئے مفید ہو۔ مذاق سے دوسرے کی دِل آزاری بھی ہوسکتی ہے، یاد رکھئے!مسلمان کی بلااِجازتِ شرعی دِل آزاری گناہِ کبیرہ، حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے، ہمیں اِس سے بچنا چاہئے۔

پرنسپل صاحب كی باتيں سُن کر طَلَبہ نے انہیں یقین دہانی کروائی کہ آئندہ وہ مذاق میں بھی اس طرح کے کام نہیں کریں گے، ٹیچر کے نہ ہونے کی صورت میں وہ اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے بلکہ علمی اعتبار سے خود کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے۔ پرنسپل صاحب اللہ پاک آپ سب کو خوش رکھے اور آپ کو نیک مقاصد میں کامیابی دے۔ یہ کہہ کر وہ کلاس رُوم سے باہر آگئے۔


Share

Articles

Comments


Security Code