بامقصد تربیت

ماں باپ کے نام

با مقصد تربیت

*مولانا آصف جہانزیب عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2023ء

قدرت کی جانب سے اولاد والدین کے لئے ایک  عظیم نعمت ہے۔ اس نعمت  کی قدر کرنا ، اس کی حفاظت کرنا اور اس کی اچھی تربیت کرنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔لیکن ہمارے معاشرے میں اکثر والدین کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ تربیت کیا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے ؟ عموما ً والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ ڈاکٹر بن جائے  ، انجینئر بن جائے ، سرکاری آفیسر بن جائے یا بچّے کو اچھی نوکری مل جائے وغیرہ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج کل کے والدین بچّوں کو اچھا مسلمان بنانے اور ان کی آخرت بہتر بنانے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ مثال کے طور پر ڈاکٹر تو بن جاتا ہے لیکن اس کے اندر سے انسانیت ختم ہو جاتی ہے ، اس کا مقصد صرف پیسے کمانا ہوتا ہے۔ اب اس کے پاس کتنا ہی مجبور و محتاج مریض آجائے اور وہ انتہائی سیریس حالت میں ہو ، تب بھی ڈاکٹر کو اس پر ترس نہیں آئے گا ، اور اُس وقت تک یہ ڈاکٹر مریض کو ہاتھ نہیں لگائے گا جب تک کہ اس کو اپنی فیس نہ مل جائے ۔ اگر وہ اچھا مسلمان ہوتا اور خوفِ خدا رکھنے والا ہوتا تو وہ پہلے اس انسان کو بچانے کی فکر کرتا۔ اس طرح کی بیسیوں مثالیں ہمارے معاشرے میں عام پائی جاتی ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ والدین نے اپنے بچّوں کو اچھا اور پکا مسلمان نہیں بنایا۔

یادرکھئے ! اولاد کی اچھی تربیت کرنا ، اسے معاشرے کا کامیاب فرد اور اچھا مسلمان بنانا یہ والدین کی تربیت پر منحصر ( Dependent ) ہوتا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے : ہر بچہ ( دینِ ) فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی ، عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔    ( بخاری ، 1 / 457 ، حدیث : 1358 )

 بحیثیتِ مسلمان ، والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں۔ تربیت کے بنیادی مقاصد میں یہ چند ضروری اُمور لازمی پیش نظر ہوں مثال کے طور پر  : * آپ کا بچہ پکا مسلمان ہو ، اللہ پاک سے ڈرنے والا اور آخرت کی فکر کرنے والا ہو ، وہ دنیا کا جتنابڑاآدمی بن جائے لیکن دنیا کی چمک دمک اس کاایمان کمزور نہ کرسکے * اس کے عقائد و نظریات مضبوط ہوں تاکہ دنیا کی گمراہیاں اس کے نظریات کو بدل نہ سکیں * وہ باا خلاق و با کردار ہو ، تاکہ اس کے کردار سے بھی اسلام کی تبلیغ ہو ، ایسا نہ ہو کہ اس کا خراب کردار اسلام کی بدنامی کا باعث بنے * بچہ محنتی بنے  ، سست کاہل اور غافل نہ بنے * بچّہ متأثِر کُن شخصیت ( Attractive Personality ) کا مالک ہو ، ہمارا بچہ دوسرے بچوں کی بُری عادتیں Acceptکرنے کے بجائے اُن پراچھاامپریشن چھوڑے۔

ان کے علاوہ اور بہت سی خصوصیات ہو سکتی ہیں جو ہم اپنے بچّوں کی تربیت میں شامل کر سکتے ہیں۔ اگر اولاد کی پرورش کے وقت والدین کے پیشِ نظر مذکورہ مقاصد ہوں تو یقیناً وہ پکا مسلمان ضرور بنے گا۔ اس کا کردار عمدہ اور نظریات مضبوط ہوں گے۔اس کا کردار اتنا مضبوط ہوگا کہ زمانے کی خرابیاں اس کو اپنے مقصد سے نہیں ہٹا سکیں گی۔ وہ جہاں بھی رہے گا اپنے مقصد کے حصول ( یعنی آخرت کی کامیابی ) کی کوشش کرتا رہے گا۔ ایسا بچہ معاشرے میں کامیاب اور ملک و ملّت کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا ۔

محترم والدین ! آپ اپنی اولاد کو دنیا داری سکھائیں لیکن اسے خوفِ خدا اور فکر ِآخرت اپنانے کامضبوط ذہن دے کر پکا مسلمان بنائیں ، پھر بھلے اسے کیسی ہی دنیاوی ترقی مل جائے اس کے عقائد و نظریات بھی سلامت رہیں گے اور وہ اپنے منصب کے ذریعے دنیا کمانے کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت بہتربنانےکی کوشش بھی کرتا رہے گا۔اِن شآءَ اللہ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شعبہ بچوں کی دنیا ( چلڈرنز لٹریچر ) المدینۃ العلمیہ  Islamic Research Center


Share

Articles

Comments


Security Code