غلطی کا اعتراف

غلطی کا اعتراف

* ڈاکٹر زیرک عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون2022ء

 انسان سے غلطی ہوسکتی ہے۔ اس بات کا اقرار ہر کوئی کرتا ہے مگر بہت ہی کم لوگ ہوں گے جو اس بات کا اعتراف کرتے ہوں کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ ایسا کیوں؟ حالانکہ کامیاب ترین وہی ہے جو اپنی خطاؤں پر مطلع ہو کر ان کی اصلاح کر کے اعلیٰ اخلاق کا حامل ہوجائے۔

اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرنا ایک بڑی خطا ہے۔ ایسی خطا جو دنیا میں بھی انسان کو ذلیل و رسوا کر دیتی ہے اور آخرت میں اس کا نقصان اور بھی سخت ہوگا۔ اور آج کل تو اکثر لوگ زبانِ قال سے یا زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میں غلط ہو ہی نہیں سکتا۔ دوسرا شخص ہی غلط ہے۔ اس “ میں نہ مانوں “ کی نحوست ہر طرح کے تعلق پر اثر انداز ہورہی ہے۔

میاں بیوی اگر اپنی غلطی کا اعتراف نہ کریں تو گھر کا امن پارہ پارہ ہوجاتا ہے۔ اولاد اور والدین کے مابین اگر اعترافِ جُرم کا فُقدان ہے تو شفقت و اطاعت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ بہن بھائی اگر ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہیں تو ان مقدس رشتوں میں بھی ایسی دراڑیں پڑجاتی ہیں جو آنے والی نسلوں میں ایک دوسرے سے دوری کا باعث بنتی ہیں۔ کسی ادارے کے ملازمین اگر اپنی کمزوریوں کا ملبہ دوسروں پر گراتے رہیں تو معاشرے کا نظام اس ملبے تلے دب جاتا ہے۔

لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر موجود اس بری خصلت کی گہرائی تک پہنچے اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ غلطی کا اعتراف نہ کرنے کی دو بڑی وجوہات ہیں :

(1)اس بات کا اِدراک ہی نہ ہو کہ میں غلط ہوں۔

(2)اَنا ، ضد اور ہَٹ دھرمی کی وجہ سے جان بوجھ کر غلطی کا اعتراف نہ کرنا۔

پہلی صورت کا علاج آسان ہے اگر کوئی کرنا چاہے۔ اس علاج  کے چار مرحلے ہیں :

(1)اتنا علم دین سیکھنا جو کہ ہم پر فرض ہے۔ اس میں بنیادی طور پر عبادات ، معاملات اور اخلاقیات کا علم ہے۔ دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول اس علم کو حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

(2)خود احتسابی کی عادت بنائے اور اپنی غلطیوں کو خود پہچاننے کی کوشش کرے۔ کیونکہ جو اپنی غلطی کو خود پہچان لیتا ہے اس غلطی کی اصلاح کرنا بھی اس کے لئے آسان ہوجاتا ہے۔

(3)جو عیب انسان دوسروں میں دیکھے ان کو اپنے اندر تلاش کرے اور پھر جو عیوب اسے اپنے اندر ملیں ان کی اصلاح میں لگ جائے۔

(4)کسی اچھے ، مخلص اور سمجھدار دوست کو یہ ذمہ داری سونپ دے کہ وہ گاہے گاہے اس کی غلطیوں کی نشاندہی کرتا رہے۔ دوسروں کی زبان سے اپنی اصلاح کو قبول کرنا ایک دشوار گزار عمل ضرور ہے مگر اس کا نتیجہ بہت ہی اعلیٰ و شاندارہے۔

گویا کہ یہ چار عَناصِر ہوں تو بنتا ہے ایک اچھا انسان۔

غلطی کا اعتراف نہ کرنے کی دوسری وجہ تھی انا ، ضد اور ہٹ دھرمی۔ اس کا علاج دنیاوی علوم و فنون کے ذریعے تقریباً نا ممکن ہے کیونکہ اس مرض کے علاج کیلئے انسان کو اپنی ذات کی پہچان کرنی پڑتی ہے۔ گو کہ سائیکو تھراپی کے ذریعے ماہرینِ نفسیات اس کے علاج کی کوشش کرتے ہیں مگر اس میں کامیابی کی شرح بہت کم ہے۔

اس کے برعکس دینِ اسلام کی خوبصورت تعلیمات میں اپنی ذات کی پہچان کے جو خزانے موجود ہیں ان کے کیا کہنے۔ آئیے اس کی ایک جھلک ملاحظہ کرتے ہیں۔ امام غزالی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : اللہ پاک نے انسان کے دل پر ایک فرشتہ مقرر فرما دیا ہے جو اسے بھلائی کی دعوت دیتا ہے۔ اس فرشتے کو مُلْہِم اور اس کی دعوت کو اِلہام کہا جاتا ہے۔ اس فرشتے کے مقابلے میں ایک شیطان بھی انسان پر مسلط کیا گیا ہے جو برائی کی طرف بلاتا ہے۔ اس شیطان کو وَسْوَاس اور اس کی دعوت کو وَسْوَسَہ کہا جاتا ہے۔ پس یہ دو دعوت دینے والے بندے کے دل پر براجمان ہیں اور اسے زندگی بھر دعوت دیتے رہتے ہیں۔ بندہ اس دعوت کو اپنے دل سے سُنتا اور محسوس کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ پاک نے انسان کی بنیاد میں ایسی طبیعت رکھی ہے جو خواہشوں اور لذتوں کی طرف مائل ہوتی ہے۔ خواہ وہ اچھی ہوں یا بری۔ اس چیز کا نام خواہشِ  نفس ہے جو انسان کو آفات میں مبتلا کر دیتی ہے۔ تو یہ تین (یعنی فرشتہ ، شیطان اور خواہش)دعوت دینے والے ہیں۔ (منہاج العابدین ، ص47 ملتقطاً)

ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! جو لوگ نیک ہوتے ہیں وہ فرشتے کی طرف سے دی گئی بھلائی کی دعوت کو قبول کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نیک لوگ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔ اور اس کی برکت سے دیگر لوگوں پر اچھا اثر پڑتا ہے اور ان کے تعلقات آپس میں خوشگوار ہوتے ہیں۔ ایسوں کا گھر امن کا گہوارہ ہوتا ہے۔

اس کے بَرعَکس وہ لوگ جو شیطان اور خواہشات کی پیروی کرتے ہیں تو انکی اَنا ، ضِد اور ہَٹ دَھرمی مزید شدت اختیار کرتی ہے اور وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ دوسروں کے جذبات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے حقوقُ العباد تک پامال کردیتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ حقوقُ العباد کا معاملہ بہت سخت ہے اور اس میں کوتاہی کا نقصان دنیا اور آخرت دونوں میں اٹھانا پڑتا ہے۔

اگر آپ بھی اپنی دنیاوی اور اُخْرَوِی زندگی خوشگوار بنانا چاہتے ہیں تو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے اور ان پر معافی مانگنے کی بہترین خصلت اپنالیں کہ اس میں ہی عافیت ہے۔ اس کے لئے اپنی ذات کی پہچان کرنا بہت ضروری ہے۔ اس ضمن میں امام غزالی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی بالخصوص دو کتابوں (منہاجُ العابدین اور احیاءُ العلوم) کا مطالعہ بہت فائدہ مند ہے۔

لیکن ایک بات یاد رکھئےکہ اگر آپ حقیقی معنوں میں اپنی ذات کی پہچان کرنا چاہتے ہیں تو میرا مفید مشورہ ہے کہ آپ شیخِ کامل امیرِ اہلِ سنت مولانا محمد الیاس عطّار قادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کے مرید بن جائیں اور ان کی دی گئی تعلیمات پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اِن شآءَ اللہ اس کی برکت آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ اللہ پاک ہماری تمام غلطیاں معاف فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ماہرِ نفسیات ، U.K


Share

Articles

Comments


Security Code