ایک کلمے کا ثواب نہ ملا/ فضیلت والے اعمال

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان حضور نبیِّ رَحمت، شفیعِ امّت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اللہ پاک کے پسندیدہ اور فضیلت والےاعمال کے بارے میں سوالات کرتے اور حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مختلف لوگوں کے  حالات و معاملات اور مواقع و ضرورت کے اعتبار سے جوابات ارشاد فرماتے۔ایسے ہی افضل و پسندیدہ اعمال کے بارے میں چنداحادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے:

سچی نیت شفیعُ المذنبین،انیسُ الغریبینصَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمکافرمانِ عالیشان ہے:سچی نیت سب سےافضل عمل ہے۔ (جامع الاحادیث،ج2،ص19،حدیث:3554)

حضرتِ علّامہ عبدالرءُوف مناوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: کیونکہ نیت میں ریاکاری داخل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے نیت باطل ہوجائے۔(فیض القدیر،ج2،ص57،تحت الحدیث: 1284)

اللہ کریم کو پیارا عمل حضرتِ سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال کیا:اللہ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اَلصَّلاَۃُ عَلی وَقْتِہَانَماز وقت پر ادا کرنا۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ فرمایا:”بِرُّ الْوَالِدَیْنِ“ ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنا۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ فرمایا: ”اَلْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِاللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ حضرتِ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نے مجھے یہ باتیں بتائیں،اگر میں زیادہ پوچھتا تو زیادہ بتاتے۔(بخاری،ج1،ص196، حدیث:527)

حدیثِ پاک میں مذکور ترتیب کی حکمت حضرتِ علامہ عبد الرءُوف مناوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: والدین کے ساتھ بھلائی کے ذِکْر سے پہلے نَماز کا ذکر اس لئے فرمایا کہ نماز میں بندے کا ربّ کے ساتھ تعلق قائم ہوتا ہے، جبکہ والدین کے ساتھ بھلائی میں بندے کا مخلوق کے ساتھ واسِطہ پڑتا ہے۔ بہتر یہی تھا کہ زیادہ اہم کو پہلے ذکر کیا جائے۔ مزید فرماتے ہیں: جہاد کا ذکر جس میں جان کی بازی لگتی ہے آخِر میں اس لئے فرمایا کہ وقت پر نَماز کی ادائیگی پر صبر اور والدین کی پابندی سے خدمت ایک ایسا کام ہے جو بار بار ہوتاہے اورسانسوں کے چلنے تک قائم رہتا ہے اور حکمِ الٰہی کی  دیکھ بھال پر صبر صرف صدیقین ہی کرسکتے ہیں۔

(فیض القدیر،ج1،ص214، تحت الحدیث:196 ملخصاً)

سجدوں کی کثرت کرو حضرت سیّدنا ثَوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال کیا کہ مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائیے جسےکرنےکی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھےجنّت میں داخل فرما دے۔آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی رضا کے لئے سجدوں کی کثرت کو لازم کرلو کیونکہ تم اللہ کے لئے ایک سجدہ کرو گے تو وہ تمہارا ایک درجہ بلند فرمائے گا اور ایک خطا مٹادے گا۔

(مسلم، ص199، حدیث:1093ملتقطاً)

حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان حدیثِ پاک کے اِس حصے ”اللہ کی رضا کے لئے سجدوں کی کثرت کو لازم کرلو“ کے تحت فرماتے ہیں:اس طرح کہ نوافل زیادہ پڑھو اور تلاوتِ قرآن کثرت سے کرو، سجدۂ شکر زیادہ کرو۔ ” تم اللہ کے لئے ایک سجدہ کرو گے تو وہ تمہارا ایک درجہ بلند فرمائے گا اور ایک خطا مٹادے گا“ کے تحت فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ سجدہ گناہوں کا کفَّارہ ہے مگر گناہوں سے مراد حُقُوْقُ اللہ کے گناہِ صغیرہ ہیں، حُقُوْقُ الْعِبَاد ادا کرنے سے اور گناہِ کبیرہ توبہ سے معاف ہوتے ہیں۔(مراٰۃ المناجیح،ج2،ص85)

افضل جہاد حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ اَنس رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: میں نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی: اللہ کریم جب آپ کو جنت کے اعلیٰ درجے میں جگہ عطا فرمائے تو مجھے آپ کا ساتھ عطا فرمائے! اور عرض کی:یا رسولَ اللہ! مجھے کوئی ایسا نیک عمل بتائیے جو میں کیا کروں! ارشاد فرمایا: نماز قائم رکھا کرو کیونکہ یہ افضل جہاد ہے، گناہوں کو چھوڑے رکھو  کیونکہ یہ افضل ہجرت ہے، اور ذکر اللہ کثرت سے کیا کرو  کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کو سب سے پیارا عمل ہے کہ تو اس طرح اسے مخاطب کرے۔(معجم کبیر،ج25،ص149، حدیث : 359)

حضرتِ سیِّدُنا علّامہ عبد الرءُوف مناوی علیہ رحمۃ اللہ الکافی فرماتے ہیں:نماز کو افضل جہاد اس لئے فرمایا کہ یہ سب سے بڑے دشمن کے خلاف جہاد ہے ۔ گناہ چھوڑنا افضل ہجرت اس لئے ہے کہ اس میں بلادِ کفر سے بلادِ اسلام کی طرف ہجرت کرنے سے زیادہ ثواب ہے۔(فیض القدیر،ج4،ص441 ، تحت الحدیث : 5505)

صبر وسماحتحضرتِ سیِّدُنا عُبَادہ بن صَامِت رَضِیَ اللّٰہُ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سرکارِ دوعالَم، شفیعِ معظَّم صَلَّی اللہ تعالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کی: یارسولَ اللّٰہ! کون سا عمل افضل ہے؟ارشاد فرمایا: اَلصَّبْرُ وَالسَّمَاحَۃُ یعنی صبراور سماحت،اس شخص نے پھر عرض کی: اس سے افضل عمل کیاہے؟ارشاد فرمایا: یہ کہ  تم تقدیر کے کسی معاملے میں اللہ پاک پربدگمانی نہ کرو۔

(شعب الایمان،ج7،ص123، حدیث:9714)

صبروسماحت کیا ہے؟حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے صبر اور سماحت کی یہ شرح بیان کی ہے کہ صبر اللہ تعالیٰ کی حرام  کردہ کاموں سے رکنا ہے اورسماحت سے مُراد اللہ پاک کے فرائض کو پورا کرنا ہے۔(جامع العلوم والحکم،ص50)

سب سے پیارا عملبدری صحابی حضرت سیدنا حَکَم بن عُمَیْر رَضِیَ اللّٰہُ تعالٰی عنہسے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہصَلَّی اللہ تعالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کو سب سے پیارا عمل کسی بھوکے مسکین کو کھانا کھلانا،اس کو قرض سے نجات دلانا  یا اس کا غم دور کرنا ہے۔(معجم کبیر،ج3،ص218،حدیث:3187)

نیک بننے کا جذبہ پانے کے لئے عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی سے وابستہ ہوجانا مفید ترین ہے۔

اللہ کریم ہمیں خوب خوب نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ،باب المدینہ کراچی


Share

ایک کلمے کا ثواب نہ ملا/ فضیلت والے اعمال

ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے سحری کے وقت اپنے کمرے میں سورۂ طٰہٰ کی تلاوت کی، جب میں نے اسے ختم کیا تو مجھ پر اونگھ طاری ہو گئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص آسمان سے اُترا جس کے ہاتھ میں ایک سفید رنگ کا صحیفہ (رجسٹر)تھا، اس نے وہ میرے سامنے رکھ دیا، میں نے اس میں سورۂ طٰہٰ لکھی ہوئی پائی اور سوائے ایک کلمہ کے تمام کلمات کے نیچے دس دس نیکیوں کا ثواب لکھا ہوا دیکھا، میں نے اس کلمے کی جگہ لکھ کر مٹا دینے کے اثرات دیکھے تو مجھے صدمہ ہوا، لہٰذا میں نے اس شخص سے کہا : اللّٰہ عَزَّوَجَلّ کی قسم! میں نے اس کلمہ کو بھی پڑھا تھا، لیکن میں اس کا ثواب لکھا ہوا پا رہا ہوں نہ ہی اس کلمے کو! تو اس شخص نے جواب دیا : آپ سچ کہہ رہے ہیں، آپ نے واقعی اسے پڑھا تھا اور ہم نے بھی اسے لکھ لیا تھا مگر ہم نے ایک ندا دینے والے کو یہ کہتے سنا کہ اسے مٹا دو ! اور اس کا اجر و ثواب بھی کم کر دو! چنانچہ ہم نے اسے مٹا دیا۔ یہ سن کر مَیں خواب میں رونے لگا اورپوچھا : تم نے ایسا کیوں کیا؟ تو وہ بولا : ایک شخص دورانِ تلاوت آپ کے پاس سے گزرا تو آپ نے اس کی خاطر اپنی آواز بلند کر لی تھی،لہٰذا ہم نے اسے مٹا دیا۔

(قوت القلوب ،ج1،ص112)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  بعض گناہ صرف اعضاء سے ہوتے ہیں مثلاً زبان سے گالی دینا ، آنکھ سے بے حیائی کے مناظر دیکھنا، مگر بعض گناہ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اعضاء کے ذریعے بھی ہوسکتے ہیں اور نیت میں شامل ہوکر ثواب کو کم یا عمل کو برباد کرسکتے ہیں ان میں سے ایک گناہ ریاکاری ودِکھلاوابھی  ہے۔ یہی ریاکاری کبھی ایمانی معاملات میں داخل ہوکر انسان کو منافقت کے مقام پر لاکھڑا کردیتی ہے،تو کبھی فرائض کی نیت میں شامل ہوکر ثواب سے محروم کردیتی ہےاور کبھی نفلی نماز،حج و عمرہ اور  صدقہ وخیرات کے عمل کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔

ریاکاری کی اقسام ظاہر اور پوشیدہ ہونے کے اعتبار سے ریاکاری کی دو قسمیں ہیں: ریائے جَلِی اور خَفِی۔ ریائے جلی سے مراد وہ ریا ہے جو عمل پر اُبھارے اور اس کی ترغیب دے۔یہ بہت واضح اور ظاہر ریا ہے جبکہ ریائے خفی سے مراد وہ ریا ہے جو پوشیدہ ہو۔  (الزواجر،ج1،ص81) نبیِّ اکرم نورِ مجسم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ریا کی ایک قسم وہ ہے جو چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ خفیف ہوتی ہے۔ (مجمع الزوائد،ج10،ص384، حدیث:17669) ریائے خفی سے بچنا بے حد دُشوار ہے  اس کی کئی  اقسام یہ ہیں: (1) بندے پرریا کاری کی وجہ سے عمل کرنا آسان ہوجائے مثلاً کوئی شخص چندہ دیتے ہوئے دل پر بوجھ محسوس کرتا ہے اور جب اس کے ساتھ دوست وغیرہ موجود ہوتو اسے دِکھانے کے لئے کہ میں اس معاملہ میں کھلے دل کا مالک ہوں، خوشدلی سے چندہ دے۔ (2)لوگوں کو اس کی عبادت کا پتا چلے تو بندہ اپنے دل میں خوش ہو (3)دل میں تو خوش نہ ہو مگر اپنے عمل کے بدلے یہ امید رکھے کہ لوگ اس کی عزت و تعظیم کریں، اس کےکام خود کردیا کریں ،اس کی تعریف کریں۔ریاکاری کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کی164 صفحات کی  کتاب ’’ریاکاری‘‘پڑھ لیجئے ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code