شاباش

درس ِکتاب زندگی

شاباش

*مولاناابو رجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2024ء

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی حوصلہ افزائی فرماتے اور اچھی بات پر شاباش دیا کرتے تھے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہُ عنہ نے عرض کی:یارسولَ اللہ! مجھے جنّت میں داخل کردینے والا عمل بتائیے! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:شاباش! شاباش! بے شک تم نے عظیم (چیز) کے بارے میں سوال کیا۔ اور بِلاشبہ یہ ہر اس شخص کے لئے آسان عمل ہے جس سے اللہ خوش ہو۔ فرض نماز پڑھو اور فرض زکوٰۃ ادا کردو۔([1])

انسان کے کردار کی اچھی خوبیوں میں سے دوسروں کوان کے اچھے کاموں پر شاباش دینا، انہیں سراہنا، ان کی حصولِ مقصد (یعنیAchievement) پر پذیرائی کرنا اور ان کی کامیابی پر مبارکباد دینا بھی ہے۔اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں دو طرح کے افراد پائے جاتے ہیں،ایک وہ جن کا رویہ بڑا شاندار ہوتا ہے کہ وہ شاباش، تحسین اور مبارک باد دینے میں کنجوسی نہیں کرتے، جبکہ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جن کو ان کی اولاد، چھوٹے بہن بھائیوں، رشتہ داروں، شاگردوں، ماتحتوں وغیرہ میں سے جب کوئی بتائے کہ مجھے آج یہ کامیابی ملی ہے، میں نے کچھ نیا سیکھا ہے،میری یہ اچیومنٹ ہے مثلاً بچے نے اپنا رزلٹ کارڈ دکھایا کہ میں نے اچھے مارکس لئے ہیں، آفس یا فیکٹری میں جونیئر نے بتایا کہ میں نے پورا مہینا ایک بھی چھٹی نہیں کی، دوست نے بتایا کہ میں نے آن لائن اسلامی احکامات کورس شروع کردیا ہے،چھوٹے بھائی نے بتایا کہ میں نے کمپیوٹر سافٹ وئیر کے ساتھ ساتھ اس کے ہارڈ وئیر کے بارے میں بھی سیکھنا شروع کردیا ہے وغیرہ، یہ سُن کر  بتانے والے کی دلجوئی کرنے یا اس کو شاباش دینے کے بجائے ان کا ری ایکشن نولفٹ والا غیر جذباتی ساہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر  بتانے والے کو مزہ نہیں آتا کہ میں نے بڑی محبت سے اپنی کامیابی کی خبر ان سے شیئر کی لیکن انہوں نے مناسب رسپانس ہی نہیں دیا، چنانچہ وہ آئندہ ایسے شخص سے اپنی خوشی شیئرکرنا ہی چھوڑ دیتاہے۔

بیٹا پڑھائی میں کمزور کیوں ہوا؟

نولفٹ کا رویہ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے، ایک شخص کا بیٹا جب اس کے پاس اپنی مارکس شیٹ دکھانے کے لئے لاتا کہ ابو دیکھئے میں نے کتنے اچھے مارکس لئے ہیں! تو وہ اسے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا بلکہ بیٹے سے کہتا کہ میں مصروف ہوں اپنی ماں کو دکھادو۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچہ پڑھائی میں کمزور ہوتا چلا گیا، جب تعلیمی ادارے والوں نے گھر میں کمپلین کی تو صورتِ حال کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ بچے کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ جب ابو جان کو میری پڑھائی کی پرواہ ہی نہیں تو میں کیوں محنت کروں!

بہرحال سرد مہری یا بے نیاز ی کا رویہ اپنانے والوں کو سوچنا چاہئے کہ ان کے اس ری ایکشن سے آنے والا خوش ہوگا؟ اگر اس کے دل میں خوشی داخل کرنے کی نیت سے ہی پُر جوش ری ایکشن دے دیا جائے تو ہمیں ثواب بھی ملے گا، اِن شآءَ اللہ۔

دل میں خوشی داخل کرنے کی فضیلت

اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی، محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنَّ اَحَبَّ الْاَعْمَالِ اِلَى اللهِ بَعْدَ الْفَرَائِضِ اِدْخَالُ السُّرُورِ عَلَى الْمُسْلِمِ یعنی اللہ پاک کے نزدیک فرائض کی ادائیگی کے بعد سب سے پسندیدہ عمل مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔([2])

علّامہ مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ نےاس حدیث کی شرح میں جو فرمایا اُس کاخلاصہ یہ ہے: فرضِ عین یعنی فرض نماز، روزے، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کی ادائیگی کےبعد اللہ پاک کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل یہ ہے کہ مسلمان کو خوش کیا جائے۔ خواہ اسے کچھ دے کریا اس سے غم و تکلیف کو دور کرکے یا مظلوم کی مدد کرکے یا اس کے علاوہ ہر وہ عمل جو خوش کرنے کا ذریعہ ہو۔([3])

شاباش کیوں نہیں دیتے؟

بہر حال یہ بھی ایک سُوال ہے کہ لوگ ایسا رویہ کیوں اپناتے ہیں ؟ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں،جن میں سے ایک یہ کہ وہ سامنے والے کی اچیومنٹ یا کامیابی کو اپنے لیول پر لے جاکر دیکھتے ہیں تو انہیں اس میں کوئی خاص بات دکھائی نہیں دیتی کہ اچھے مارکس لینا، پورا مہینا چھٹی نہ کرنا،کوئی نیا کام سیکھ لینا کونسی بڑی بات ہے؟ چنانچہ اسی مرحلے پر وہ مار کھاجاتے ہیں حالانکہ اگر وہ آنے والے کے لیول پر جاکر اس کی خوشی کو محسوس کرنے کی کوشش کریں تو ان کا ری ایکشن مختلف ہوگا جیسے”چند قدم چلنا“ ہمارے لئے کونسی بڑی بات ہے لیکن یہی کام بچہ پہلی بار کرے تو وہ کتنا خوش ہوتا ہے اور ایسے میں اس کے والدین کا ری ایکشن بھی خوشی سے بھرپور ہوتا ہے کیونکہ وہ بچے کے لیول پر جاکر اس کی خوشی کو محسوس کرتے ہیں۔اگر بے نیازی کا مظاہرہ کرنے والے بھی ایسا ہی کریں تو ان کا ری ایکشن بھی اچھا ہوگا، پھر وہ سامنے والے کو شاباش بھی دیں گے اور اس کی خوشی میں شریک بھی ہوں گے۔اِن شآءَ اللہ!

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرّسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])مسند ابی داؤد طیالسی، ص76، حدیث: 560

([2])معجم کبیر، 11/59، حدیث: 11079

([3])فیض القدیر،1/216،تحت الحدیث:200مفہوماً ۔


Share

Articles

Comments


Security Code