امیدیں دلانا

کتابِ زندگی

 اُمیدیں دِلانا(Having Hopes)

* مولانا  ابورجب محمد آصف عطاری مدنی

ماہنامہ جون 2021

حضرت سیِّدُنا عیسیٰ  علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام  ایک جگہ تشریف فرما تھے ، قریب ہی ایک بوڑھا آدمی بیلچے سے زمین کھود رہا تھا۔ آپ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض  کی : اَللّٰھُمَّ انْزَعْ مِنْہُ الْاَمَل یعنی اے اللہ! اس کی امید ختم کردے! اس بوڑھے نے بیلچہ رکھا اور لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر گزری تو آپ نے پھر عرض  کی : اَللّٰھُمَّ ارْدُدْ اِلَیْہِ الْاَمَل یعنی اے اللہ! اس کی امید لوٹا دے! وہ بوڑھا شخص اُٹھا اور کام میں مصروف ہوگیا۔ آپ  علیہ السّلام  نے اس سے پوچھا توکہنے لگا : میں کام کر رہا تھا کہ دل میں خیال آیا کہ تم بوڑھے ہوچکے ہو ، کب تک کام کرو گے؟ اس لئے میں نے بیلچہ ایک جانب رکھا اور لیٹ گیا ، پھر میرے دل میں آئی : جب تک تم زندہ ہو گزر بسر بھی تو کرنی ہے!لہٰذا میں نے کھڑے ہوکر بیلچہ سنبھال لیا۔ (احیاء العلوم ، 5 / 198)

ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! ہماری زندگی میں امید کی وہی اہمیت ہے جو جسم میں خون کی ہے۔ اگر امید ختم ہوجائے تو لوگ اپنے کاروبار ، تعلیم ، محنت مزدوری ، زراعت اور دیگر کام کاج چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ جائیں جس کے نتیجے میں نظامِ زندگی تباہ ہوکر رہ جائے گا۔ شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ امید پہ دنیا قائم ہے۔

جب کوئی امید دلا کر پوری نہ کرے! اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امید انسان کو جینے کا حوصلہ دیتی ہے ، آزمائشوں اور مصیبتوں کو برداشت کرنے کی طاقت دیتی ہے ، زندگی کو کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کرتی ہے ، لیکن بعض اوقات یہی امید انسان کو پریشان بھی کردیتی ہے ، یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص تعاون کی بھرپور پیشکش کرکے آپ کی اُمیدوں کے چراغ روشن کردے مثلاً وہ آپ سے کہے :

*جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہو بس مجھے اشارہ کردینا میں تمہیں لے دوں گا ، میں ہوں نا! *تمہارے بچّے کا آپریشن ہے پیسوں کی طرف سے نہ گھبرانا اسپتال کا سارا بل میں ادا کروں گا  *تمہاری بیٹی کی شادی ہے ، وہ میری بھی بیٹی ہے ، تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ، جہیز کا سارا یا فلاں فلاں سامان میں لے کر دوں گا  *تمہارا ہاتھ تنگ ہے ٹینشن نہ لو مہینے بھر کا راشن میں تمہارے گھر پہنچا دیا کروں گا ، تمہارا بھائی ابھی زندہ ہے!  *تمہارا قرضہ میں ادا کردوں گا *اس رشتے سے منع کردو میرے پاس اس سے کہیں اچھے رشتے موجود ہیں  *تمہیں سفرِ مدینہ کا خرچہ میں پیش کردوں گا ، تم تیاری کرو *تم دل لگا کر پڑھائی کرو ، جتنی فیس ہوگی میں بھروں گا *چھوڑو  ایسی گھٹیا نوکری ، استعفیٰ دے کر مجھے ملو ، میں تمہیں اس سے اچھی نوکری دلوا دیتا ہوں  *نوکری میں کیا رکھا ہے! آؤ دونوں مل کر کاروبار کرتے ہیں ساری رقم میں لگاؤں گا اور نفع ففٹی ففٹی (یعنی آدھا آدھا) کرلیں گے۔

اس طرح کی آفرز کے جواب میں ہم اپنی ساری امیدیں اس شخص سے وابستہ کرلیتے ہیں پھر جب ان امیدوں کے عملی طور پر پورے کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ حیلے بہانے کرکے راہِ فرار اختیار کرلیتا ہے پھر وہ ہمیں گھر پر نہیں ملتا یا ہمارا فون ریسیو نہیں کرتا تو ہم ٹینشن میں آجاتے ہیں۔

تین سبق آموز واقعات : اس قسم کے کئی واقعات ہمارے معاشرے میں آئے دن پیش آتے ہیں ، جیسا کہ

(1)میرے ایک جاننے والے نے بتایا کہ ان کی بیوی کا آپریشن ہونے والا تھا ، لیڈی ڈاکٹر نے خون کی بوتل كا انتظام رکھنے کی سختی سے تاکید کی ، بلڈ گروپ او نیگیٹو تھا جو کم ہی ملتا ہے ، کافی بھاگ دوڑ کے بعد ایک صاحب مل گئے جن کا بلڈ گروپ یہی تھا اور وہ خون دینے پر تیار بھی ہوگئے اور کہا جب آپ کو ضرورت ہو بس مجھے ایک فون کردینا میں پہنچ جاؤں گا ، آپریشن کے دن تک ان سے رابطہ اور یاددہانی کا سلسلہ بھی رہا ، آپریشن ہونے سے پہلے ڈاکٹر نے خون کی بوتل طلب کی تو میں نے متعلقہ صاحب سے فون پر رابطہ کیا بیل جاتی رہی مگر فون ریسیو نہیں ہوا ، بار بار کی کوشش کے بعد بھی نتیجہ صفر رہا ، دوسری طرف آپریشن شروع ہوچکا تھا ، بہرحال میں نے مُصلّٰی بچھایا اور ذکر و دعا میں مشغول ہوگیا۔ اللہ پاک کا کرم ہوا کہ آپریشن میں خون لگنے کی نوبت ہی نہیں آئی ، البتہ مجھے ایک سبق ضرور ملا کہ کوئی کیسی ہی امید دلائے متبادل بندوبست ضرور رکھنا چاہئے۔

(2)اسی طرح ایک مسجد کے امام صاحب نے بتایا کہ ان کے بھائی تلاشِ روزگار کے لئے پنجاب سے کراچی آئے ، کئی جگہ رابطہ کیا مگر بات نہیں بنی ، اس سے پہلے کہ مزید جگہوں پر کام کی تلاش کے لئے جاتے ، ان کے ایک واقف کار کا راولپنڈی سے فون آیا جنہوں نے بڑا زور دے کر کہا کہ تمہارے لئے یہاں کام ریڈی ہے ، بس تم پہنچ جاؤ۔ انہوں نے کئی بار کنفرم کیا کہ کام واقعی اوکے ہے؟ جواب یہی ملتا رہا کہ ٹینشن لینے کی کوئی بات ہی نہیں ہے ، بس تم پہنچو۔ چنانچہ امام صاحب کے بھائی کراچی سے راولپنڈی کے لئے روانہ ہوگئے۔ کم وبیش 22 گھنٹے کے سفر کے بعد راولپنڈی پہنچے اور وہاں جاکر اس شخص کو فون کیا ، کافی دیر بعد رابطہ ہوا تو اس نے یوٹرن لے لیا کہ ابھی یہ پرابلم ہے وہ پرابلم ہے ، تھوڑا ٹائم لگے گا۔ یہ اس کی باتوں میں آگئے اور آٹھ نو دن راولپنڈی میں بغیر کمائی کے فارغ بیٹھے رہے ، دوسری طرف وہ “ آج کل ، آج کل “ کرتا رہا ، بالآخر جب اس شخص کے دعوے پورے ہونے کی کوئی امید نظر نہ آئی تو بے چارے خالی ہاتھ اپنے گھر ننکانہ (پنجاب) لوٹ آئے۔

(3)یونہی کراچی یونیورسٹی میں ایم فل کرنے والے ایک اسٹوڈنٹ نے بتایا کہ مجھے ایم فل کے چار سمسٹر کی اکٹھی فیس دسمبر2020 تک ایک لاکھ سات ہزار روپے ادا کرنی تھی جس کی وجہ سے میں بہت پریشان تھا ، میرے ایک واقف کار نے مجھ سے کہا کہ تم بس آدھی فیس کا انتظام کرلو باقی مجھ پر چھوڑ دو ، جب ان کے ادا کرنے کی باری آئی تو انہوں نے مجھے تسلیاں دینا شروع کردیں کہ بس آج کل میں تمہیں میسج کرتا ہوں ، یہی کرتے کرتے فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ گزر گئی لیکن مجھے بقیہ آدھی فیس نہ مل سکی۔

محترم قارئین! اس قسم کے کئی واقعات ہوسکتا ہے خود آپ کے ساتھ یا آپ کے اِردگرد رہنے والوں کے ساتھ پیش آئے ہوں۔ انسان ایسے تجربات سے بہت کچھ سیکھتا ہے ، اس طرح کے معاملات میں دوفریق ہوتے ہیں : ایک امید دلانے والا اور دوسرا وہ جس کو امید دلائی گئی ، دونوں کے لئے  14  ٹِپس پیشِ خدمت ہیں۔

امید دلانے والوں کے لئے :

(1)تعاون یا مدد کی امید دلانے والے افراد عموماً تین قسم کے ہوتے ہیں : (۱)جو صرف کہتے ہیں ، کرکے دکھانا ان کا مقصد نہیں ہوتا ، ایسے لوگ وعدہ خلافی کے مُرتکب ہوتے ہیں (۲)جو کہتے ہیں وہ کرکے بھی دکھاتے ہیں ، ایسے لوگ لائقِ تحسین ہیں (۳)جو کہتے ہیں اسے پورا کرنے کی نیت بھی رکھتے ہیں لیکن بعد میں کسی مجبوری کی وجہ سے پورا نہیں کرسکتے (ایسے میں دوسرے کو پہلے سے آگاہ کرنا مفید ترین ہے تاکہ وہ متبادل انتظام کرسکے)۔ اپنا جائزہ لے لیجئے کہ خدانخواستہ کہیں آپ پہلی قسم میں تو شامل نہیں؟ ہم کسی کا دُکھ بانٹ نہیں سکتے تو اسے مزید پریشان بھی نہیں کرنا چاہئے۔

(2)بعض اوقات کسی کی حالت یا ضرورت دیکھ کر ذہن بن جاتا ہے کہ میں اس کی ضرور مدد کروں گا ، ایسی صورت میں اس پر اپنے ارادے کا اظہار اسی وقت کرنا بہتر ہے جب آپ مدد کرنے کے قابل ہوں تاکہ عین وقت پر آپ کو ندامت اور اسے مشقت نہ اُٹھانی پڑے۔

(3)کوئی رکاوٹ نہ ہو تو ضرورت کا وقت آنے پر اس کے مانگنے سے پہلے ہی اسے مطلوبہ مدد مہیا کرکے تشویش سے بچائیے اور مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنے کا ثواب کمائیے۔

(4)جب بھی کسی سے مدد کا وعدہ کریں تو الفاظ سوچ سمجھ کر منتخب کیجئے تاکہ سامنے والے پر اچھی طرح واضح ہوجائے کہ آپ اس کی کتنی اور کس طرح مدد کرسکتے ہیں اور وہ خوش فہمی کا شکار ہوکر بہت زیادہ امیدیں نہ باندھ لے۔

(5) “ اگر آپ کو کسی قسم کی ضرورت ہو ، کوئی چیز چاہئے ہو تو میں حاضر ہوں ، مجھے حکم فرما دیجئے گا “ کسی کو بیماری یا کسی اور آزمائش میں دیکھ کر اسے ان الفاظ میں مدد کی “ پیش کش “ کرنے کے بجائے “ پیش کش “ سے “ کش “ کا لفظ ہٹائیے اور خود ہی معلومات کرکے تعاون “ پیش “ کردیجئے اور اس کے دل کی دعائیں لیجئے کیونکہ حیا اور مروت رکھنے والا آدمی ایسی پیش کش کے جواب میں شکریہ کہہ کر خاموش ہوجائے گا اور اپنی ضرورت کھل کر بیان نہیں کرسکے گا۔ ایسی صورت میں نقد رقم پیش کردینا بہتر ہے تاکہ وہ اپنی ضرورت کی چیز خود خرید لے۔

(6)آپ نے جس سے مدد کا وعدہ کیا ہوا تھا ، وقت آنے پر وہ آپ سے گھر یا آفس ملنے آئے تو مل لیجئے یا وہ فون پر رابطہ کرے تو اس کا فون ریسیو کرلیجئے ، اگر کسی مجبوری کی وجہ سے آپ کی اس سے ملاقات نہ ہوسکی یا آپ فون ریسیو نہ کرسکے تو پہلی فرصت میں اس سے خود رابطہ کرکے اس کی تشویش کو دور کیجئے ، اگر آپ عین وقت پر غائب ہوگئے تو بے چارے کی پریشانی بڑھ جائے گی اور وہ آپ سے بدظن بھی ہوسکتا ہے۔ یاد رکھئے! انسان دوقسم کے چہرے نہیں بُھولتا ، ایک مصیبت میں ساتھ دینے والے کا اور دوسرا مصیبت میں ساتھ چھوڑ جانے والے کا۔

(7)اگر آپ نے کسی سے مدد کا وعدہ بھی نہیں کیا تو بھی اس کی مصیبت ، آزمائش اور بیماری کے وقت بغیر مطالبے کے اس کی مدد کرکے اس کی مشکل آسان کیجئے اور دنیاوی و اُخروی فوائد کے حقدار بنئے ، رسولِ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظُلْم کرتا ہے اور نہ ہی اسے رُسوا کرتاہے اور جوکوئی اپنے بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے اللہ اس کی حاجت پوری فرماتاہے اور جو کسی مسلمان کی ایک پریشانی دور کرے گا اللہ قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دور فرمائے گا۔ (مسلم ، ص1069 ، حدیث : 6578)

(8)کسی کی مدد کرتے وقت رضائے الٰہی پانے کی نیت اور دیگر اچھی اچھی نیتیں کرلیجئے اور ہرگز ہرگز احسان جتانے کی غلطی نہ کیجئے کیونکہ کسی غریب کی مدد کردینا ، دُکھیارے کا دکھ بانٹنا ، غریب کا علاج کروانا یا کسی بھی طرح کسی کے کام آنا بہت ہی اچھا کام ہے لیکن اس کے بعد اس پر بلاضرورتِ شرعی اِحسان جتانا بہت ہی بُرا ہے ، اللہ پاک کا فرمانِ ہدایت نشان ہے : ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-) ترجمۂ کنزالایمان : اے ایمان والو اپنے صدقے باطل نہ کردو احسان رکھ کر اور ایذا دے کر۔ (پ3 ، البقرۃ : 264)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) خاتَمُ الْمُرْسَلین ، رَحمَۃٌ لِّلْعٰلمین  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا فرمان ہے : احسان جتانے والا ، والدین کا نافرمان اور شراب کا عادی جنت میں نہیں جائے گا۔ (نسائی ، ص895 ، حدیث : 5683) یعنی یہ لوگ اَوَّلًا جنّت میں جانے کے مستحق نہ ہوں گے۔  (مراٰۃ المناجیح ، 6 / 530)

امیدیں وابستہ کرنے والوں کے لئے :

 (9)اگر آپ کو کوئی مدد کی آفر کرے تو اوّلاً خودداری کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی پیش کش شکریہ کے ساتھ لوٹا دیں کیونکہ انسان جب کسی کو کچھ دیتا ہے تو عموماً “ واہ “ نہیں “ آہ “ کرکے دیتا ہے اور لینے والے کی نسبت نہ لینے والے سے متأثر ہوتا ہے۔

 (10)اگر آپ اتنے مجبور ہیں کہ اس کی پیش کش قبول کئے بغیر چارہ نہیں تو بھی اس سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہ کرلیں اور پہلے سے اپنا یہ ذہن بناکر رکھیں کہ ہوسکتا ہے جب آپ کی ضرورت کا وقت آئے تو وہ خود مجبور ہو ، یا اس کی آفر کسی خاص حادثے یا بیماری کے لئے محدود مدّت کے لئے ہو یا ابھی اس کی نیت مدد کرنے کی ہے بعد میں دل پِھر جائے ، الغرض کچھ بھی ہوسکتا ہے اس لئے اپنا متبادل انتظام ضرور رکھئے تاکہ آپ کو پریشانی کے وقت مزید پریشانی نہ ہو۔

(11)ضرورت پڑنے پر جب آپ آفر کرنے والے کو فون کریں اور ریسیو نہ ہو تو اسے جھوٹا ، دغا باز ، فراڈیا قرار دینے کی بدگمانی کرنے کے بجائے حسنِ ظن (اچھا گمان) کرکے ثواب کمائیے کہ ہوسکتا ہے وہ نماز میں ہو یا واش روم میں ہو ، یا موبائل چارجنگ پر لگا ہوا ہو ، یا اس کا فون ہی کسی نے چھین لیا ہو۔

(12)ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کی آفر کے بغیر ہی ہم اس سے بڑی امید وابستہ کرلیتے ہیں پھر اس انتظار میں رہتے ہیں کہ وہ بغیر کہے ہماری مدد کرےگا ، یہ نادانی ہے کیونکہ ہوسکتا ہے وہ ہماری مدد کرنے کی پوزیشن میں ہی نہ ہو تبھی تو اس نے آفر بھی نہیں کی۔ بہت سی پریشانیاں ہم دوسروں سے بے بنیاد امیدیں وابستہ کرکے مول لیتے ہیں ، اس سے بچئے۔

(13)پریشانی سے نکلنے کا یہی ایک طریقہ نہیں ہے کہ کوئی ہماری مالی مدد کردے ، ضرورتاً قرض لے کر بھی تو کام چلایا جاسکتا ہے ، اس آپشن کو بھی کھلا رکھئے۔

(14)اگر ہوسکے تو گھریلو طور پر ایمرجنسی فنڈ مقرر کرلیجئے اور ہر مہینے کچھ نہ کچھ رقم اس میں جمع کرتے رہئے اور اس اصول کو سختی کے ساتھ اپنا لیں کہ یہ رقم صرف ایمرجنسی کی صورت میں استعمال ہوگی۔ اس طریقۂ کار کے فوائد آپ کھلی آنکھوں سے دیکھیں گے ، اِنْ شآءَ اللہ۔

اللہ کریم ہمیں عافیت ، راحت اور آسانی نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین ، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ

 


Share

Articles

Comments


Security Code