ترقی مگر کیسے؟(دوسری اور آخری قسط)

کتابِ زندگی

ترقی مگر کیسے؟(دوسری اور آخری قسط)

?Progress! But How

* مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2022ء

ترقی کے لئے یہ راستے اختیار (Select)کیجئے :

کچھ نیا سیکھئے

سیکھنا (learning) انسان کی ویلیو اور اسکلزمیں اضافے کا اہم ذریعہ ہے اس لئے سیکھنے کے عمل پر فل اسٹاپ نہ لگائیے بلکہ کچھ نہ کچھ ایسا نیا سیکھنےکی کوشش کریں جو آپ کے شعبے سے Direct یا Indirect متعلق ہو۔ اس کے لئے ایک لسٹ بنالیجئے کہ آپ کے شعبے (Field)میں کتنی قسم کے کام ہوتے ہیں؟ اور ان میں سے کتنے کام آپ کو آتے ہیں اور مزید کون کون سے کام آپ کو سیکھنے چاہئیں؟پھر ان کاموں کو سیکھنا شروع کردیجئے۔ جیسے تحریری شعبے میں عموماً یہ کام ہوتے ہیں : موضوع پر مواد (Content)کی تلاش جس میں آیات اور ان کی تفاسیر ، احادیث اور ان کی شروحات ، بزرگانِ دین کے فرامین ، حکایات ، فقہی جزئیات ، جدید ریسرچ وغیرہ شامل ہوتی ہے پھر ان کاموں کے لئے کمپیوٹر کا استعمال بھی ہوتا ہے جس کے سافٹ وئیر کی دنیا الگ ہے۔ یہ سب کرنے کے بعد اس کی آؤٹ لائن بنائی جاتی ہے کہ جمع شدہ مواد میں سے کتنا حصہ کتاب یا رسالے یا کالم میں شامل کرنا ہے ، مواد کو کس ترتیب سے لانا ہے ، درمیان میں وضاحت اور ذہن سازی (Mind making) کے لئے کن جملوں کااستعمال کرنا ہے ، مجموعی اعتبار سے دلچسپی کس طرح پیدا کرنی ہے کہ پڑھنے والا اس کتاب یا رسالے کو مکمل پڑھے۔

کہاں سے سیکھیں ؟

اس کے لئے اپنے سینیئر سے سکھانے کی درخواست کی جاسکتی ہے کہ جو انہیں آتا ہے وہ آپ کو باقاعدہ سکھا دیں ۔ اس کے علاوہ ٹیکنالوجی بہت ترقی کرچکی ہے ، اس حوالے سے مختلف کورسز کروانے والے ادارے موجود ہیں جو آن لائن کورسز بھی کرواتے ہیں۔ صرف کمپیوٹر ہی کو لے لیجئے اس کے سافٹ وئیر اور ہارڈوئیر کی دنیا بہت وسیع ہے ، انٹرنیٹ کی دنیا میں ای سروسز ، ای بزنس ، ای بُکس ، ای لرننگ ، ای مارکیٹنگ وغیرہ آج ایک حقیقت ہے۔ اسی طرح علمِ دین سے وابستہ حضرات کے لئےطرح طرح کی سرچنگ ایپلی کیشنز اور ویب سائٹس آچکی ہیں کہ چند سیکنڈز میں مطلوبہ آیت ، اس کی تفسیر ، حدیث اور اس کی شرح ، فقہی مسائل ، سیرت ، تاریخ اور فقہی ریسرچ وغیرہ تک پہنچا جاسکتا ہے جبکہ پہلے یہی کام صرف کتابوں میں ڈھونڈنے سے ہوتا تھا جس کے لئے کئی کئی گھنٹے کی محنت درکار ہوتی تھی۔ عموماً ان ایپلی کیشنز اور ویب سائٹ کے استعمال کے کورسز کروانے والے بھی موجودہوتے ہیں ۔

یہ ضرور ہے کہ آپ جو بھی سیکھیں کسی اچھے سکھانے والے (Instructor ) سے سیکھیں ، بغیر انسٹرکٹر کے سیکھنے والے کی مثال اس بائیک چلانے والے کی طرح ہے جو چوتھا گیئر لگانے کے بجائے تیسرے گیئر میں ہی ایکسیلیٹر (Accelerator) دے دے کر کراچی گھوم آئے ، اس سے ظاہر ہے کہ بائیک کے انجن پر کیا گزرے گی جاننے والے جانتے ہیں۔ ایک اسکالر کی آپ بیتی سنئے : شروع شروع میں جب مجھے کمپیوٹر کی کچھ سمجھ بوجھ (Know-How) نہیں تھی اور میرے انچارج نے مجھے کام کے لئے چند فائلز زِپ فولڈر میں دیں اور میں نے اس کو Unzip کئے بغیر ہی کام شروع کردیا کچھ دیر بعد ایک فائل چیک کروائی تو کچھ بھی محفوظ نہیں تھا ۔

ہمیں کسی نے سکھایا نہیں!

بعض لوگ یہ شکوہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ ہم نے فلاں ادارے میں اتنا عرصہ کام کیا یا فلاں ماہرکے ساتھ اتنے سال رہے لیکن اس نے ہمیں کچھ سکھایا ہی نہیں! ایسے میں یہ غور کر لیجئے کہ آپ نے سیکھنے کی کتنی کوشش کی! سکھانے والا مقناطیس(Magnet) کی طرح ہوتا ہے اور سیکھنے والا لوہے کی طرح ، لہٰذا سیکھنے والا سکھانے والے کی طرف لپکے گا تو ہی کچھ سیکھ پائے گا ، اس لئے جب آپ کو کسی کام کا ماہر مل جائے تو اس سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش ضرور کریں ۔

مطالعہ کیجئے

انسان کی ترقی میں معلومات کا بھی اہم کردار ہے کہ وہ اپنی فیلڈ کے بارے میں جتنا اپ ڈیٹ ہوگا کہ اس کام کو کرنے کے کون سے جدید طریقے سامنے آچکے ہیں اسی قدر اس کے کام میں بہتری آئے گی جو اسے ترقی دلوائے گی۔ معلومات کے حصول کا ایک اہم ذریعہ مطالعہ(Study) بھی ہے۔ کس کو کس وقت کیا پڑھنا مفید ہے؟ اس کی پہچان ہونا بھی بہت ضروری ہے ۔ وقت نہیں ملتا ، طبیعت ساتھ نہیں دیتی ، کہہ کر مطالعہ نہ کرنے کا بہانہ (Excuse) نہ بنائیں ، شوق اور جذبہ ہوتو مشکلیں آسان ہوجایا کرتی ہیں ، موبائل اور گپ شپ وغیرہ میں ہمارا کتنا وقت ضائع ہوجاتا ہے ؟ یہ حساب تو کیجئے پھر اسی وقت کو مطالعہ جیسے مفید کام  میں خرچ کرنے کا پلان بنائیے ، نیت صاف منزل آسان!

(مطالعہ کی اہمیت اور مزید فوائد جاننے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کے رسالے “ شوقِ علمِ دین (تذکرۂ امیرِ اہلِ سنّت ، قسط : 4) “ کا مطالعہ ضرور کیجئے۔ )

مشاہدے سے فائدہ اٹھائیے

معلومات میں اضافے کا دوسرا بڑا ذریعہ مشاہدہ (Observation) ہے ، ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اس کا ہمارے دل ودماغ پر مثبت یا منفی اثر پڑتا ہے ۔ مشاہدے کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ بچہ اپنےبڑوں کو جو کام کرتے دیکھتا ہے وہ بھی اسی طرح کرنے کی کوشش کرتا ہے ، بڑے بیٹھ کر پانی پئیں گے تو بچہ بھی بیٹھنا شروع کردے گا۔ مشاہدے سےجو نتیجہ ہم نکالیں گے وہ ہمارے نالج کا حصہ بن جائے گا لیکن راہِ سلامت یہ ہے کہ اپنے مشاہدے کا حتمی نتیجہ نہ نکالیں ، لچک رکھیں ، اس کا مطلب “ یہی ہے “ کے بجائے “ یہ بھی ہوسکتا ہے “ سے کام لیں۔ مشاہدے سے نتیجہ اخذ کرنے کے لئے پریکٹیکل مائنڈ ہونا اور طبیعت کا اَخّاذ ہونا بھی ضروری ہے۔

تجربات سے سیکھئے

ہمیں اپنی زندگی میں چھوٹے بڑے ، اچھے بُرے تجربات (Experiences) ہوتے رہتے ہیں ۔ یہ تجربات ہمیں ناکامیوں سے بچانے اور ترقی دلوانے میں معاون ہوتے ہیں۔ ہر کام کا خود تجربہ کرنے کے بجائے تجربہ کار لوگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا ہمارا وقت بچاتا ہے اور ہمیں نقصان سے بھی محفوظ رکھتا ہے ۔

نالج بینک بنائیے

میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ ایک نالج بینک بنالیجئے جس کی برانچیں آپ کی یادداشت ، ڈائری اور ای سروسزمیں قائم ہوں ، آپ کی معلومات کا خزانہ ان سب میں محفوظ ہو اور بوقتِ ضرورت آپ ان معلومات سے فائدہ اٹھا سکیں بالکل اسی طرح کہ آپ اپنی جمع کروائی ہوئی رقم بینک کی برانچ سے بھی نکلواسکتے ہیں ، کسی کو ٹرانسفر کر سکتے ہیں ، اسی طرح اے ٹی ایم مشین سےبھی یہ سارے کام کرسکتے ہیں چاہے وہ ملک کے کسی حصے میں بھی ہو اور موبائل اکاؤنٹ کے ذریعے بھی اپنی رقم سے یوٹیلٹی بلز ، تعلیمی اداروں کی فیسیں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کسی کو رقم ٹرانسفر بھی کرسکتے ہیں۔

کام کا پریشر برداشت کرنا سیکھیں

کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جوتھوڑے وقت میں زیادہ کام یا ایک وقت میں بہت سے کام کرلیتے ہیں ، ایسوں کی ویلیو بھی زیادہ ہوتی ہے اور ترقی بھی جلدی ہوتی ہے ، جبکہ بعض لوگ وہ ہوتے ہیں کہ جنہیں روٹین سے ہٹ کر کوئی کام دے دیا جائے یا پھر ایک سے زائد کام کرنے کا کہا جائے تو وہ گھبرا جاتے ہیں اور یوں کہتے سنائی دیتے ہیں کہ مجھ سے کام کا پریشر برداشت نہیں ہوتا ، اس قسم کی سوچ رکھنے والوں کو اداروں میں زیادہ پسند نہیں کیاجاتا اور انہیں ترقی بھی نہیں ملتی بلکہ اگر ڈی سائزنگ (یعنی ملازمین کو کم کرنے) کی ضرورت پڑے تو اس طرح کے لوگوں کو سب سے پہلے نکالا جاتا ہے ۔ اس لئے کام کا پریشر برداشت کرنے کی عادت بنائیں۔

جواب دہی کا حوصلہ رکھئے

بعض لوگوں سے پوچھا جائے کہ فلاں کام ابھی تک کیوں نہیں ہوسکا ؟ اس کام میں اتنی دیر تو نہیں لگنی چاہئے تھی تو وہ ناراض اور پریشان ہوجاتے ہیں اور یوں کہتے دکھائی دیتے ہیں “ بھئ! مجھ سے جواب نہ مانگا جائے۔ “ جواب دہی (Accountability) کا حوصلہ ہونا چاہئے جو کام کرتا ہے اسے اپنی کارکردگی کاحساب دینا پڑتا ہے۔ جو جتنے بڑے منصب پر ہوتا ہے اسے اتنے بڑے لیول پر جواب دینا ہوتا ہے۔ بڑا بزنس مین بھی سامان کی ڈلیوری کرتا ہے تو اسے بھی کوالٹی وغیرہ کے حوالے سے جواب دہی کا سامنا ہوتا ہے۔ اس لئے جو کام کریں اس کے لئے ٹائم فریم طے کرلیں پھر اسے وقت پر مکمل کردیجئے اور اگر تاخیر ہوجائے تو اس کی وجہ بھی آپ کو معلوم ہونی چاہئے تاکہ پوچھے جانے پر اپنے انچارج کو بتا سکیں۔

ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین!اپنی حالت وکیفیت کے مطابق مزید غور کرنے پر کئی ایسی چیزیں سامنے آئیں گی جو آپ کو سیکھنی چاہئیں ۔ کوئی مقام یا منصب ایسا نہیں جہاں پہنچ کر کہا جاسکے کہ اب مزید سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ، اس لئے سیکھنے کا عمل جاری رکھئے۔ اللہ کریم ہمارا حامی وناصر ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* اسلامک اسکالر ، رکنِ مجلس المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code