کتاب زندگی

خواہشات کا پیالہ

* ابورجب محمد آصف مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021

کہتے ہیں کسی سلطنت کا بادشاہ ایک روز شاہی دَورے کے لئے نکلا۔ واپسی پر محل کے قریب اُسے ایک فقیر نظر آیا جو ایک سائیڈ پر بے نیاز بیٹھا تھا۔ بادشاہ نے کہا : بابا! تمہیں جو چاہئے مجھے بتاؤ ، میں دوں گا۔ یہ سُن کر فقیر کی ہنسی نکل گئی۔ بادشاہ نے کچھ سختی سے پوچھا : اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے! اپنی خواہش بتاؤ ، میں تمہیں ابھی مالا مال کردوں گا۔ فقیر نے کہا : بادشاہ سلامت! آفر تو آپ ایسے کررہے ہیں جیسے میری ہر خواہش پوری کرسکتے ہوں؟ اب بادشاہ نے بَرہَمی سے کہا : بے شک! آخر میں بادشاہ ہوں۔ فقیر نے اپنی جھولی سے ایک کشکول نکالا اور کہا : اگر آپ کو اپنی دولت پر اتنا ہی ناز ہے تو اِس پیالے کو بھر دیجئے۔ بادشاہ نے حیرت سے کشکول کو دیکھا ، وہ سیاہ رنگ کا عام سا لکڑی کا خالی پیالہ تھا۔ اُس نے اِشارے سے ایک وزیر کو قریب بلایا اور حکم دیا : اس پیالے کو سونے کی اَشرفیوں سے بھردو ، یہ فقیر بھی کیا یاد کرے گا کہ کیسے سخی بادشاہ سے پالا پڑا تھا! وزیر نے حکم کی تعمیل میں کمر سے بندھی اشرفیوں کی تھیلی کھولی اور پیالے میں خالی کردی۔ سونے کے سکے پیالے میں گرے اور فوراً غائب ہوگئے۔ وزیر نے حیرت سے پیالے میں جھانکا ، پھر ایک اور تھیلی کھولی اور پیالے میں ڈال دی۔ اس بار بھی سکے غائب ہوگئے ، بادشاہ کے اِشارے پر وزیر نے سپاہیوں کو بھیجا کہ محل میں رکھی اشرفیوں کی کچھ تھیلیاں لے آئیں۔ وہ تھیلیاں بھی ختم ہوگئیں مگر پیالہ ویسے کا ویسا خالی ہی رہا۔ یہ ماجرا دیکھ کر بادشاہ نے خزانے سے قیمتی موتیوں سے بھری ایک بوری منگوائی ، وہ بھی خالی ہوگئی۔ اب کی بار بادشاہ کا چہرہ سرخ ہوگیا ، اس کی عزت کا سوال تھا ، اُس نے ضدی لہجے میں وزیر سے کہا : اور بوریاں منگوا لو ، جو کچھ بھی ہے اِس پیالے میں ڈال دو ، اسے ہر حال میں بھرنا چاہئے۔ وزیر نے ایسا ہی کیا۔ دوپہر ہوگئی لیکن پیالہ بدستور خالی رہا کیونکہ جو چیز پیالے میں ڈالی جاتی وہ فوراً ہی غائب ہوجاتی اور پیالہ ویسے کا ویسا خالی رہتا۔ آخر شام ہونے کو آئی تو بادشاہ کے چہرے پر بے بسی جھلکنے لگی ، اس نے آگے بڑھ کر فقیر کا ہاتھ تھام لیا ، نظریں جھکا کر اس سے مُعافی مانگی اور کہنے لگا : اے مردِ درویش! اب تم ہی بتاؤ کہ اس پیالے میں ایسا کیا راز ہے جو یہ بھرتا ہی نہیں ؟ فقیر نے سنجیدگی سے جواب دیا : اس میں کوئی خاص راز کی بات نہیں ہے ، دراصل یہ پیالہ انسانی خواہشات سے بنا ہے۔ انسان کی خواہشات کبھی پوری نہیں ہوسکتیں ، جتنا چاہو ڈال دو ، خواہشات اور تمناؤں کا پیالہ ہمیشہ خالی رہتا ہے ہمیشہ مزید کی طلب میں رہتا ہے۔ [1]

محترم قارئین! اس اسٹوری کے پیالے کی طرح ہماری خواہشات کا پیالہ بھی نہیں بھرتا۔ خواہشات (Wishes)پوری کرنے کے چکر میں ہم اپنی صحت ، وقت اور دولت تک گنوا بیٹھتے ہیں لیکن ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو چار نئی خواہشات پیدا ہوچکی ہوتی ہیں۔ پھر بچپن میں خواہشات اور انداز کی ، جوانی میں خواہشات کچھ اور طرح کی جبکہ بڑھاپے میں ہماری خواہشات کسی اور لیول کی ہوتی ہیں یہاں تک کہ ہماری زندگی ختم ہوجاتی ہے لیکن خواہشات پوری نہیں ہوپاتیں۔ یاد رکھئے! خواہشات کی دنیا بڑی وسیع ہے ، ہمیں شہرت چاہئے تو ایسی کہ اگرآج ہمارے محلے والے ہمیں جانتے پہچانتے ہیں تو خواہش ہوتی ہے کہ سارے شہر میں ہمارا ڈنکا بجے ، شہر والوں کی حد تک شہرت مل جائے تو صوبائی پھر مُلکی بلکہ بینَ الاقوامی طور پر مشہور ہونے کی خواہش جاگتی ہے ، خود کو بنا کر ، مثبت کام کرکے اگر شہرت نہ ملے تو اپنا آپ بگاڑ کر ، خطرناک جان لیوا جگہوں پر سیلفی بنانے جیسے منفی کام کرکے مشہور ہونے کی کوشش کی جاتی ہے ، اس کے لئے میڈیااورسوشل میڈیا کا بھرپور سہارا لیا جاتا ہے اور خود کو یہ کہہ کر منالیا جاتا ہے کہ “ بَدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا “ حصولِ عزت اور تعریف کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے دکھاوے کی عبادتیں کرنا ، تنہائی میں کی جانے والی اپنی عبادتوں کا غیرضروری چرچا ، غریبوں سے بناوٹی ہمدردی ، جھوٹی خوش اخلاقی اور کیا کیا جَتَن نہیں کئے جاتے اپنی تعریف اور عزت کروانے کے لئے! ایسے لوگ خبردار ہوجائیں کہ ہمارے نبی پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں بتا چکے کہ دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑدیئے جائیں تو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ مال و دولت کی حِرْص اور حُبِّ جاہ انسان کے دین کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ [2]

پھر بعضوں کو مال و دولت جمع کرنے کی ایسی خواہش ہوتی ہے کہ بالفرض انہیں قارون کا خزانہ بھی دے دیا جائے تو جی نہ بھرے ، مال کمانے کے لئے حرام حلال کا معیار چھوڑنا پڑے ، کسی کا حق مارنا پڑے ، کسی کی زمین پر قبضہ کرنا پڑے ، فراڈ کرنا پڑے تو یہ بھی کر گزرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مال کا لالچ بڑھتا ہی رہتا ہے لالچی آدمی کا کوئی ٹارگٹ نہیں ہوتا ہے کہ وہاں پہنچ کر یہ ہاتھ اٹھا کر کہے کہ بس! اب مجھے اور مال نہیں چاہئے۔ اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : جوں جوں ابنِ آدم کی عمر بڑھتی ہے تو اس کے ساتھ دو چیزیں بھی بڑھتی رہتی ہیں : (1)مال کی محبت  اور (2)لمبی عمر کی خواہش۔ [3]

آرام و آسائش ، نئے نئے ماڈل کی مہنگی گاڑیاں ، نئے ڈیزائن کے عالیشان بنگلوز ، قیمتی کپڑوں پر مشتمل وارڈ روبز ، روزانہ چٹ پٹے مرغن کھانے بھی ہماری خواہشات کا حصہ ہوتے ہیں۔ اہم اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ ہماری اکثر خواہشات ہماری مالی حیثیت کے مطابق نہیں ہوتیں ، اس کے لئے پہلے پہل قرض کے بکھیڑوں میں پڑا جاتا ہے پھر جب قرض مانگے سے نہیں ملتا تو نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ حلال طریقے سے ہو یا حرام ذریعے سے! بس ہماری خواہشات پوری ہونی چاہئیں ، آخر انسان اپنی خواہشات کے جال میں پھنس کر رہ جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی زندگی اسی مکڑی کی طرح ختم ہوجاتی ہے جو اپنے ہی بُنے ہوئے جال میں پھنس کر دم توڑ دیتی ہے۔ غور کیجئے! جس انسان کی نظر میں دنیاوی خواہشات پوری کرنا ہی سب کچھ ہو وہ آخرت میں کامیابی کی خواہش پر کیونکر توجہ دے پائے گا۔ اس کی گفتگو ، اس کی منصوبہ بندی ، اس کے تعلقات کی بنیاد صرف اور صرف دنیاوی زندگی کے لئے ہوگی۔ ہمارے حقیقی خیرخواہ ہمارے مکی مدنی آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ہمیں بہت پہلے نصیحت فرمادی تھی کہ : اللہ کی پناہ مانگو ایسی خواہش سے جو عیب میں ڈال دے اور ایسی خواہش سے جو دوسری خواہش میں ڈال دے اور بےفائدہ چیزکی خواہش سے۔ [4]

چنانچہ ہمیں چاہئے کہ ہم سب سے پہلے اپنی خواہشات کا جائزہ لیں کہ وہ شرعی اعتبار سے جائز ہیں یا ناجائز؟ ناجائز خواہشات کو توفوری طور پر چھوڑ دیں اور جائز خواہشات پوری کرنے میں بھی خیال رہے کہ اللہ و رسول کے کسی حکم کو توڑنا نہ پڑے ، کسی بندے کی حق تلفی نہ ہو اور آخرت میں پریشانی کا سبب نہ بنے۔ اللہ پاک ہمیں اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔                                             اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(مزید تفصیلات کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب “ حرص “ (232 صفحات) پڑھ لیجئے۔ )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین ، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] حرص ، ص172

[2] ترمذی ، 4 / 166 ، حدیث2383

[3] بخاری ، 4 / 224 ، حدیث : 6421

[4] مسنداحمد ، 8 / 237 ، حدیث : 22082۔


Share

Articles

Comments


Security Code