میں اہم تھا یہی وہم تھا

کتابِ زندگی

میں اہم تھا یہی وہم تھا

 ( I was living in a fool’s Paradise )

*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2023

کئی پُرانی اور نئی کتابوں میں قبروں کے سرہانے لگی تختیوں پر لکھے مختلف جملے نقل کئے گئے ہیں جن سے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے کسی نے ایک پوسٹ بھیجی جس میں ایک قبر کی تصویرتھی ، اس قبر پر لگی تختی پر لکھا تھا: ” میں اہم تھا یہی وہم تھا۔ “ پوسٹ تو چند سیکنڈ میں نظر سے گزر گئی لیکن میں کافی دیر اس جملے کے مفہوم پر غور کرتا رہا کہ واقعی قبر میں جانے والے کے احساسات کی ترجمانی کی جائے تو وہ گویا یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ مجھے تو اس دنیا سے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ” میں اہم تھا یہی وہم تھا “ لیکن تم لوگ ابھی زندہ ہو ، اپنی اس خوش فہمی کو جتنی جلدی دور کرلو بہتر ہے کہ ” میں اہم ہوں “ اور اس بات کو سمجھ جاؤ کہ ” یہی وہم ہے۔ “

ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین ! ایک رائے وہ ہوتی ہے جو دوسرے ہمارے بارے میں رکھتے ہیں اور ایک رائے وہ ہوتی ہے جو انسان خود اپنے بارے میں رکھتا ہے ، یہ رائے حقیقت پر مشتمل بھی ہوسکتی ہے اور خوش فہمی پر بھی ! اپنی حیثیت کے بارے میں حقیقی اندازہ لگانے والا دل سے کہے گا: ” مَن آنَم کہ مَن دَانَم یعنی میں اپنے بارے میں جانتا ہوں کہ میں کیا ہوں “ ، ” صَاحِبُ الْبَیْتِ اَدْرٰی بِمَا فِیْہ یعنی گھر والا زیادہ جانتا ہے کہ اس کے گھر میں کیا ہے ؟  “ ، ” خاک مجھ میں کمال رکھا ہے مصطَفےٰ نے سنبھال رکھا ہے۔ “ جبکہ اپنے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہونے والا اپنی عبادت و ریاضت ، حُسن و جمال ، اَخلاق و اَطوار ، کرداروگفتار ، اپنی صلاحیت ، مہارت اور اہمیت کے حوالے سے غلط فہمی میں مبتلا ہوتا ہے۔ اپنی اہمیت کے بارے میں اس کی زبان سے بھی خوش فہمی پر مشتمل بڑے بول نکل جاتے ہیں جیسے ؛ * ہم سے بڑھ کر عقل مند کون ؟ * مجھے سب آتا ہے ، گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے * یہ کمپنی میرے ہی دَم قدم سے چل رہی ہے ، آج چھوڑ دوں تو دھڑام سے زمین پر آگرے گی * اس اسکول کی شہرت اس لئے اچھی ہے میرے جیسا ماہر ٹیچر یہاں پڑھاتا ہے ، اگر میں نہ ہوں تو کوئی اِدھر کا رُخ بھی نہ کرے * یہ تحریک / تنظیم / جماعت میری ہی وجہ سے قائم ہے ، آج اس کا ساتھ چھوڑ دوں تو دیکھتا ہوں کیسے ترقی کرتی ہے ! اتنے ملازمین کا روزگار مجھ جیسے سیٹھ کی وجہ سے لگا ہوا ہے اگر میں ان کو نکال دوں تو بھوکوں مریں گے ، سیٹھ کی دکان اسی لئے چل رہی ہے کہ مجھ جیسا ماہر سیلز مین یہاں کام کرتا ہے اگر آج نوکری چھوڑ دوں تو دیکھتا ہوں دکان کتنے عرصے چلتی ہے ! جہاں ہم کھڑے ہوجائیں لائن وہی سے شروع ہوتی ہے وغیرہ۔

نقصانات خوش فہمی میں خوش رہنے والے کئی قسم کے نقصانات اٹھاتے ہیں مثلاً وہ اپنی صلاحیتوں میں بہتری نہیں لاسکتے ، عاجزی کر کے ثواب نہیں کماسکتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں ہم سے بہتر کوئی نہیں ، یہ خوش فہمی عُجب  ( خوبی کو اپنا کمال سمجھنا ) ، حُبِ جاہ  ( عزت وشہرت کی محبت )  اور تکبر  ( خود کو اعلیٰ دوسرے کو حقیر جاننا )  جیسی باطنی بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے۔ خوش فہمی میں مبتلا لوگوں کو لگتا ہے کہ میرے سوا یہ ذمّہ داری کوئی نبھا ہی نہیں سکتا اس لئے کسی کو ترقی دے کر اپنی جگہ نہیں بٹھاتے ، خود انہیں دوسری ذمّہ داری دی جائے تو انکار کردیتے ہیں کیونکہ وہ پہلی ذمہ داری کے لئے خود کو اہم ترین سمجھتے ہیں ، یوں ان کی خوش فہمی کا نقصان ان کے آس پاس موجود لوگوں کو بھی ہوتا ہے۔

اس کا حل اپنی اہمیت کے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہوکر بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ یوں تو فرش کی ہرٹائل کہے گی کہ میں ہی فرش ہوں حالانکہ اسے نکال کر دوسری ٹائل لگا دی جائے تو فرش کو کوئی فرق نہیں پڑتا ، اسی طرح دریا کی ہر موج کہے گی میں ہی دریا ہوں حالانکہ ” موج ہے دریا میں بیرونِ دریا کچھ نہیں۔ “ یاد رکھئے ! ہم سب ایک سسٹم کے تحت اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں اس لئے ہم جُز  ( Part ) ہیں کُل نہیں ! اگر ہم کام نہیں کریں گے تو کوئی اور کرلے گا ، دنیا میں کیسے کیسے اہم لوگ آئے اور چلے گئے لیکن دنیا کے کام نہیں رُکے ان کی جگہ کسی اور نے سنبھال لی ، ایک دن ہم بھی مر جائیں گے لیکن کام چلتا رہے گا۔ اس لئے ربِّ کریم ہم سے جتنا کام لے لے یہ اس کا کرم ہے ہمارا اس میں کوئی کمال نہیں ہے۔خوش فہمی سے جان چھڑانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اپنے ہی شعبے کے کسی اہم فرد سے اپنا تقابل کرکے دیکھیں ، آپ کو اپنی حیثیت کا اندازہ ہوجائے گا کیونکہ اونٹ جب تک پہاڑ کے نیچے نہیں آتا وہ اپنے آپ کو سب سے اونچا سمجھتا ہے۔

سبق آموز واقعہ آخر میں ایک اسٹوری شیئر کرتا ہوں ، اس سے بھی سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا ، لیکن اسے دل پر نہ لیجئے گا۔

بیل گاڑی گاؤں دیہات کی سواری ہے جو چھوٹا موٹا سامان یہاں سے وہاں لے جانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اس میں ایک یا دو بیل تو ہوتے ہی ہیں لیکن ساتھ میں ایک درمیانے سائز کا کتا بھی ہوتا ہے جو بیل گاڑی کے نیچے نیچے بھاگتا ہے۔ اس کی ڈیوٹی یہ ہوتی ہے کہ جہاں بیل گاڑی کھڑی کردی جائے وہاں سامان اور بیلوں کی حفاظت کرے۔ بیل گاڑی کے نیچے دوڑنے بھاگنے والے اسی قسم کے ایک کتےکو خوش فہمی ہوگئی کہ بیل گاڑی تو میں چلاتا ہوں ، اس کا سارا بوجھ میں اٹھاتا ہوں لیکن کسان جہاں رُکتا ہے وہاں پہلے بیلوں کو چارا کھلاتا ہے ، پھر خود کھانا کھاتا ہے اور آخر میں مجھے دیتا ہے ، اسے میری اہمیت کا احساس ہی نہیں ، یہ سوچ سوچ کر وہ غم زدہ رہنے لگا ، ایک دن اس نے کسان پر اپنی اہمیت جتانے کا پلان بنایا کہ جب وہ تپتی دھوپ میں بیل گاڑی میں کہیں جارہا ہوگا تو میں بیل گاڑی چلانے سے انکار کردوں گا ، تب وہ میری مِنّت سماجت کرے گا ، تب اسے پتا چلے گا کہ میں کتنا اہم ہوں ! اگلے ہی دن جب کسان کو دوسرے گاؤں جانا تھا ، آدھے راستے میں کتے نے بیل گاڑی کے نیچے دوڑنے کے بجائے آنکھیں بند کیں اور بیٹھ گیا ، اب اسے کسان کی منت سماجت کا انتظار تھا لیکن تھوڑی ہی دیر گزری تھی اسے دھوپ کی تپش اور شدید گرمی محسوس ہوئی ، آنکھیں کھول کر دیکھا تو بیل گاڑی چلتی ہوئی دور جاچکی تھی ، اب اسے احساس ہوا: ” میں اہم تھا یہی وہم تھا۔ “

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  اسلامک اسکالر ، رکنِ مجلس المدینۃ العلمیہ   اسلامک ریسرچ سینٹر  ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code