سوچیں(Thoughts)

کتابِ زندگی

سوچیں(Thoughts)

*مولاناابو رجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2024ء

سوچنا انسان کی زندگی کا حصہ ہے، اس کی سوچیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں،کبھی یہ اختیاری طور پر(Consciously) سوچتا ہے اور کبھی سوچیں خود بخود اس کے دل و دماغ میں داخل ہوجاتی ہیں جنہیں کبھی یہ نکال باہر کرتا ہے تو کبھی سینے سے لگا لیتا ہے۔ کبھی یہ اپنے بارے میں سوچتا ہے تو کبھی دوسروں کے بارے میں۔ یہ سوچیں ضروری بھی ہوتی ہیں تو کبھی فضول بھی! بلکہ بعض صورتوں میں گناہ بھی۔ سوچوں کے پہلو مثبت بھی ہوتے ہیں اور منفی بھی۔یہ سوچیں اس کی دنیا و آخرت پر اثرانداز (Effective)بھی ہوتی ہیں،کیونکہ انسان صرف سوچتا نہیں ہے بلکہ اس پر عمل کر گزرتا ہے۔

قارئین! ہمیں اس کا شعور (Awareness) ہونا چاہئے کہ ہم کیا سوچتے ہیں اور ہمیں کیا سوچنا چاہئے؟ انسان کبھی اپنے بارے میں اور کبھی دوسروں کے بارے میں سوچتا ہے!

انسان اپنےبارے میں کیا سوچتا ہے؟

مجھے ترقی کیسے ملے گی؟میں اپنی صلاحیتوں کو کس طرح بڑھا سکتا ہوں؟ میں خوشحال کیسے ہوسکتا ہوں؟ مجھے آسائشات اور سہولتیں ملنی چاہئیں، مجھے اتنی سیلری ملنی چاہئے، میری عزت کی جائے، مجھے شہرت ملے، میری واہ وا ہونی چاہئے، مجھے میرے حقوق نہیں ملتے، مجھے تنگ کیا جاتا ہے، ستایا جاتا ہے، میرے سینے میں جلنے والی انتقام کی آگ کیسے ٹھنڈی ہوسکتی ہے؟ فلاں کام کرنے سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟ وغیرہ۔

ان مثالوں میں مثبت اور منفی دونوں آپشن شامل ہیں، لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہماری سوچ مثبت ہو لیکن اس تک پہنچنے کا طریقہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائز نہ ہو جیسے کوئی مالی طور پر (Financially)خوشحال ہونے کے لئے رشوت لیتا ہے تو یہ ناجائز ہے۔

اپنے بارے میں یہ بھی سوچئے

بہت سی باتیں اپنے ہی بارے میں سوچنے کی ہیں لیکن ہم بہت کم سوچتے ہیں،صرف 2 کی نشاندہی کرتا ہوں:

(1)یہ سوچنا ضروری ہے کہ میری کیا کیا ذمہ داریاں (Responsibilities) ہیں، ایک بہت بڑی ذمہ داری کا بیان اس حدیث پاک میں موجود ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم سب نگہبان ہو اور ہر ایک سے اُس کی رِعایا(یعنی ماتحتوں اور محکوم لوگوں)کےبارے میں پوچھا جائے گا۔ جسے لوگوں پر امیر بنایا گیا وہ نگہبان ہے،اُس سے اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے اہلِ خانہ پر نگہبان ہے، اُس سے اہلِ خانہ کے بارے میں سُوال کیا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھراور اس کی اَولاد پر نگہبان ہے،وہ اُن کے بارے میں جواب دِہ ہو گی، غلام اپنے آقا کے مال پر نگہبان ہے، اُس سے اِس بارے میں پوچھ گَچھ ہو گی۔ سُن لو! تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اورہر ایک سے اُس کی رِعایا (ماتحتوں اور محکوم لوگوں) کے بارے میں پرسِش (یعنی پوچھ گچھ) ہوگی۔([1])

اس حدیثِ پاک کے تحت شارحِ بخاری حضرت علّامہ مفتی محمدشریف الحق امجدی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: (رعایا (Subjects) سے) مراد یہ ہے کہ جو کسی کی نگہبانی (Supervision) میں ہو۔ اس طرح عوام سلطان اور حاکم کے، اولاد ماں باپ کے، تلامِذہ اَساتذہ کے، مریدین پیر کے رعایا ہوئے۔ یونہی جو مال زوجہ یا اولاد یا نوکر کی سُپُرْدَگی میں ہو۔ اس کی نگہداشت ان پر واجب ہے۔ نیزنگہبانی میں یہ بھی داخِل ہے کہ رعایا گناہ میں مبتلا نہ ہو۔([2]) جبکہ حضرت الحاج مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ نہ سمجھو کہ صرف بادشاہ سے ہی اس کی رِعایا کا سوال ہوگا ہم آزاد رہیں گے، نہیں بلکہ ہرشخص سے اپنے ماتحت لوگوں کے متعلِّق سوال ہوگا کہ تم نے ان کے دینی و دُنیاوی حُقوق ادا کیے یا نہیں؟([3])

(2)اپنی دنیا ہی نہیں آخرت کے بارے میں بھی سوچئے، قراٰنِ پاک میں ہے:

(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ-)

ترجَمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ کل کے لیے کیا آ گے بھیجا۔([4]) یعنی روزِ قیامت کے لئے کیا اعمال کئے۔([5])

اس سوچ کے نتیجے میں اپنے خالق و مالک کی نافرمانیوں سے بچنے اور آخرت کے لئے ثواب کا خزانہ اکٹھا کرنے کا ذہن بنےگا۔ اس سوچ کے عملی نفاذ کے لئے دنیا کی ٹاپ کلاس دینی تنظیم دعوتِ اسلامی کا بہترین پلیٹ فارم موجود ہے،اس میں شامل ہوجائیے آپ کا کردار وعملAutomatically بہتر ہونا شروع ہوجائے گا، اِنْ شآء اللہ۔

ہم دوسروں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

لگتا ایسا ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں اپنے سے زیادہ سوچتے ہیں کہ فلاں ایسا کیوں کرتا ہے، ویسا کیوں کرتا ہے؟ مثلاً *یہ تو نکما تھا اس کو نوکری کیسے مل گئی؟ رشوت دی ہوگی *ایک دَم اتنا امیر کیسے ہوگیا؟ کرپشن کی ہوگی *اسے مکان کا کرایہ دینا بھاری پڑتا تھا، اب اپنا ذاتی مکان خرید لیا ہے، لمبا ہاتھ مارا ہوگا *بیوی کا غلام ہے *اسے کچھ نہیں آتا جاتا *خوشامدی ہے *اسے غریبوں کا کوئی احساس نہیں *بہت چالاک آدمی ہے *کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا *اپنی اوقات بھول گیا ہے *کتے کی دُم کی طرح ہے جو سیدھی نہیں ہوسکتی *میرے دشمن سے دوستی کرکے مجھے نیچا دکھانا چاہتا ہے *اسے صرف اپنا مفاد عزیز ہے *مجھ سے حسد کرتا ہے *جھوٹا اور فراڈیا ہے *نخرے باز ہے *فلاں جگہ رشتہ کیوں کیا؟ *بڑا بَنا ٹَھنا رہتا ہے۔

دوسروں کے بارے میں سوچنے کی اس طرح کی سینکڑوں مثالیں بن سکتی ہیں۔ انہی سوچوں کے نتیجے میں کسی کے بارے میں اچھی یا بُری رائے بھی قائم کرلی جاتی ہے۔ بہرحال انسان دوسروں کے بارے میں منفی سوچنے سےآگے چل کر زیادہ تر جن گناہوں میں مبتلا ہو سکتا ہے، ان میں بدگمانی،عیب تلاشنا،غیبت، تہمت وغیرہ سرِ فہرست ہیں۔ کتنی خوفناک بات ہے کہ انسان دوسروں کے بارے میں سوچنے کی وجہ سے خود جہنم کی آگ میں جلے اور ہولناک عذابات کا سامنا کرے! ابھی موقع ہے سنبھل جائیے اور سچی توبہ کرلیجئے۔

دوسروں کے بارے میں یہ سوچئے

اب رہا یہ سوال کہ دوسروں کے بارے میں ہمیں کیا سوچنا چاہئے تو آپ کو مثبت اور اچھا سوچنے کی درجنوں جہتیں (Directions) مل جائیں گی، مثلاً اگر کسی کو دیکھیں کہ اسے شریعت کے احکامات نہیں معلوم یا وہ نماز نہیں پڑھتا، روزہ نہیں رکھتا یا دیگر فرائض و واجبات پورے نہیں کرتا تو اسے سمجھانے کی سوچیں،یہ حکمِ قراٰنی بھی ہے:

(وَذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵))

ترجَمۂ کنزالایمان: اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔([6])

اسی طرح آپ کے اِردگردکوئی بیمار ہے تو سوچئے کہ مجھے اس کی عیادت کرنی ہے، کوئی اپنے عزیز کی فوتگی یا کسی اور وجہ سے غمگین ہے تو اس سے تعزیت کرنی ہے، کوئی مظلوم ہے تو اسے ظلم سے بچانے کا سوچیں، مایوس شخص کی مایوسی ختم کرنے کا سوچیں، بے ہنر کو کوئی ہنر (Skill) سکھانے کا سوچیں، کوئی اچھا کام کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس وسائل (Resources) نہیں ہیں تو اس کا وسیلہ بننے کا سوچیں، کوئی پریشان حال ہے، بے سہارا ہے بالخصوص سیلاب، زلزلے جیسے سانحات (Accidents) کے متأثرین، ان کی دلجوئی اور فلاحی مدد کرنے کا سوچئے۔

ان لوگوں کے بارے میں بھی سوچنا ضروری ہے جو آپ کی ذمہ داری میں ہیں: مثلاً آپ ٹیچر ہیں تو اسٹوڈنٹس کے بارے میں سوچئے کہ انہیں علمِ دین بہتر انداز میں کس طرح سکھایا جاسکتا ہے؟ ٹرانسپورٹر ہیں تو پیسنجرز کے بارے میں سوچئے کہ انہوں نے جس لئے کرایہ دیا ہے وہ چیزیں انہیں مل رہی ہیں یا نہیں؟ کسی آفس میں مینجر ہیں تو اپنے اسٹاف کے فرائض کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کے بارے میں بھی سوچئے، باپ ہیں تو اولاد کی اسلامی تربیت کے بارے میں سوچئے، اسی طرح میزبان مہمانوں کی اچھی مہمان نوازی اور ڈاکٹر مریضوں کے بارے میں سوچے کہ میں ان کا درست اور مفید علاج کررہا ہوں یا نہیں؟

سوچیں پاکیزہ رکھنے کا طریقہ

انسان کو یہ آزادی نہیں کہ جو چاہے سوچے کیونکہ ہرسوچ سوچنے کی نہیں ہوتی،اب رہا یہ سوال کہ سوچیں تو بِن بلائے بھی آجاتی ہیں؟تو جس طرح پانی کو صاف کرنے کے لئے فلٹر کا استعمال بھی کیا جاتا ہے کہ وہ آلودہ پانی(Polluted water) کو گزرنے نہیں دیتا بلکہ صاف کرکے گزارتا ہے اسی طرح اپنی سوچوں کو پاکیزہ اور صاف رکھنے کے لئے بھی دل و دماغ میں ایک فلٹر کا ہونا ضروری ہے جو آلودہ اور بُری سوچوں کو روک دے۔

آج کل ایک عجیب رجحان (Trend)زیادہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ ہر دوسرا شخص اپنی پرابلم حل کرنے کے لئے الگ سے فارمولا بنانے کی کوشش کررہا ہے کہ میں یوں کروں گا تو یہ میرا مسئلہ حل ہوجائے گا یا پھر ایسے لوگوں سے مشورہ کرتا ہے یا انہیں فالو کرتا ہے جن کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، یاد رکھئے کہ اسلام ہماری زندگی کے ہر ہر پہلو کے بارے میں راہنمائی کرتا ہے،

(وَنَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ)

ترجَمۂ کنزُ الایمان:اور ہم نے تم پر یہ قراٰن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے۔([7])

کہا جاتا ہے: ”Islam is the complete code of life“ اب ہمیں صرف اسے ڈی کوڈ کرنا ہے، اس لئے اسلامی معلومات (Knowledge)کے حصول کو اپنا ٹارگٹ بنالیجئے، پھر آپ کی زندگی کا جو بھی ایشو ہو اس کے لئے اسلامی طریقہ معلوم کیجئے، اس پر عمل کیجئے، اس عمل کا نتیجہ وہی نکلے گا جو آپ کے حق میں بہتر ہوگا کیونکہ یہ اسلام کا نظام اسی رب کائنات کا بنایا ہوا ہے جس نے ہمیں بنایا ہے، اور بنانے والا اپنی بنائی ہوئی چیز کے فائدے، نقصان کے بارے میں سب سے زیادہ جانتا ہے۔

سوچئے کہ آپ کیا سوچتے ہیں؟ اور کیا سوچنا چاہئے؟

Think about what you think? And what should be thought?

اللہ پاک ہمیں اچھا سوچنے کا شعور عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضان مدینہ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])بُخاری، 2/159،حدیث:2554

([2])نزہۃ القاری، 2/530، 531

([3])مراٰۃ المناجیح، 5/351

([4])پ28، الحشر:18

([5])خزائن العرفان، ص1012

([6])پ28، الحشر:18

([7])پ14، النحل:89


Share

Articles

Comments


Security Code