ساس کو کیسا ہونا چاہئے؟(دوسری اور آخری قسط)

(6)جس طرح ماں کےاپنے بیٹے پرحقوق ہوتے ہیں اسی طرح بیوی کےبھی کچھ حقوق اپنے شوہر پر ہوتے ہیں،لہٰذا جب بیٹا ماں کے حقوق پورے کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی بیوی کا بھی  خیال رکھے اور اس کی ضروریات پوری  کرےتوساس کا اس پرناراض ہونا،اپنے ہی بیٹے کوکوسنا،”جَورو(بیوی)کا غلام“،”ماں کا  نافرمان“ ہونے کے طعنے دینا مناسب نہیں،اگر ساس ایسے موقع پر خود کو بہو کی جگہ رکھ کر سوچے تو شاید اسے اپنے رَوَیّے پر شرمندگی ہو۔(7) اگر بیٹے کا بیوی کی طرف جھکاؤ زیادہ محسوس ہو توبہو کے بارے میں بدگُمانی نہ کرے کہ اس نے میرے بیٹے پر جادوٹونہ کروا دیا ہے،یاد رہے کہ بِلاثُبوتِ شَرْعی  کسی  کے بارے میں بدگُمانی کرنا جائز نہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ) ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو! بہت  گُمانوں سے بچو بے شک کوئی گُمان گُناہ ہوجاتاہے۔ (پ26، الحجرات: 12)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) بدگُمانی کی آفت دیکھتے ہی دیکھتے گھر کی خوشیاں کھا جاتی ہے، ایک دوسرے کے بارے میں حُسنِ ظَن رکھئے،اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ گھرخوشیوں کا گلشن بن جائےگا۔(8)ساس کو چاہئے  کہ بیٹےکی غیر موجودَگی میں بھی بہو سے نرمی وپیارسے گفتگو کرے، پریشانی میں اس کی ڈھارس بندھائے ،اس کی خوشیوں میں شریک ہو،الغرض اسے ایسی اپنائِیَت دے کہ بہو اسے اپنی خیرخواہ اور ہمدردسمجھے۔(9)لڑکی کےوالدین کی عُموماً خواہش ہو تی ہے  کہ ان کی بیٹی  خوشی غمی میں  ان کے ساتھ  شریک ہو، ایسےمیں بہوپربِلاوجہ پابندی لگا دینا اور اسےوالدین کے پاس جانے سے روک دینا دونوں خاندانوں میں رنجش (ناراضی) کا باعِث بن جاتا ہے، ساس کو چاہئے کہ وہ   موقع کی نزاکت کو سمجھےاور تنگ دلی سے کام نہ لے بلکہ بہو کے میکےکی خوشی و غمی میں حسبِ موقع خود بھی شریک ہو۔(10)لڑکی کا گھر بسانے میں لڑکے کی ساس(یعنی لڑکی کی ماں)  کا  کردار بھی نہایت اہم ہے، وہ  اپنی بیٹی کی ایسی تربیَت کرےکہ وہ شادی کے بعد اچّھی بیوی اور بہو ثابت ہوسکے۔بیٹی بیاہنے کے بعدسُسْرال والوں کےخلاف اس کے کان بھرنا، چالبازیاں سِکھانا، داماد کواس کے والدین سےبلاوجہ جُدا ہونے کے مشورے اور بے جامطالبات بیٹی کی زندگی میں زہر گھول سکتےہیں۔(11)ساس چاہے لڑکے کی ہو یا لڑکی کی  دونوں کو اپنی  ذِمّہ داریوں کا خوب احساس ہونا چاہئے، کیونکہ اپنی اولاد کےگھر کوخوشیوں کا گہوارہ یا پریشانیوں کی آماجگاہ بناناان کے ہاتھ میں بھی ہے چنانچہ اگر ان کے رویّے میں تَلْخی،بد اَخلاقی، بے مُرَوَّتی، زَبان درازی ہوئی تو  ان کی اولاد کا گھر  یلو سکون برباد  ہو سکتا ہے اور اگران کے برتاؤ میں محبت، ہمدردی، حُسنِ اَخلاق اور نرمی ہوئی تودونوں گھرانوں کا بھلا ہوگا۔

گھر بَسا نے  کے لئے چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنا، غلطیوں سے دَرْگُزَر کرنا،گفتگو میں  احتیاط کرنااورپریشانی میں صَبْر،برداشت اورحکمتِ عملی سے کام لینا بہت ضَروری ہے۔  آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو دوسروں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کیجئے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ عاشقانِ رسول کے گھروں کو امن کا گہوارہ بنائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share

Articles

Comments


Security Code