ساداتِ کرام کی محبت و خیر خواہی

اسلام اور عورت

سادات كرام كی محبت و خیر خواہی

* اُمِّ میلاد عطاریہ

ماہنامہ اگست2021ء

واقعۂ کربلا کے بعد اہلِ بیت کو مدینۂ منوّرہ تک پہنچانے کے لئے جس شخص کو مقرر کیا گیا تھا وہ بہت نیک دل تھا ، اس نے پورے راستے اہلِ بیت کی ضروریات کا خیال رکھا اور اُن کے ساتھ نرمی اور حسنِ سُلوک سے پیش آیا ، جب یہ قافلہ مدینۂ منوّرہ پہنچ چکا تو شہزادی ِ شیرِ خدا حضرت زینب کی چھوٹی بہن فاطمہ بنتِ علی  رضی اللہُ عنہم  نے حضرت زینب سےعرض کی : اس شخص نے پورے سفر میں ہمارا خوب خیال رکھا ہے ، ہمیں بھی اسے کچھ نہ کچھ انعام دینا چاہئے۔ حضرت زینب  رضی اللہُ عنہا نے فرمایا کہ ہم اس شخص کو صرف اپنے زیورات ہی پیش کرسکتے ہیں۔ چُنانچہ دونوں شہزادیوں نے اپنے کنگن وغیرہ اُتار کر اُسے دے دئیے اور ساتھ ہی معذرت بھی کی (کہ اس کے علاوہ ہمارے پاس دینے کے لئے کچھ بھی نہیں) ، اس شخص نے وہ تمام سامان واپس لوٹا دیا اور عرض کی : اگر میں نے یہ خدمت گُزاری دنیوی مفاد کے لئے کی ہوتی تو یقینا ً اس انعام پر مجھے خوشی ہوتی ، مگر میں نے تو یہ خدمت صرف اللہ پاک کی خُوشنودی اور رسولُ الله  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے آپ لوگوں کی قرابت داری کی وجہ سے کی ہے۔ (الکامل فی التاریخ ، 3 / 440)

محترم اسلامی بہنو! ساداتِ کرام سے محبت ایمانِ کامل کی نشانی ہے اور عشقِ رسول کا تقاضا ہے کہ اہلِ بیت سے حد درجہ محبت کی جائے اور ان کی عزت و تکریم کی جائے ، احادیثِ مبارکہ میں جابجا ساداتِ کرام سے محبت اور ان کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا فرمایا گیا ہے چنانچہ پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : ہم اہلِ بیت کی محبت کو خود پر لازم کرو کیونکہ جو (بروز قیامت) اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ ہم سے محبت رکھتا ہو ، تو وہ ہماری شفاعت کے سبب جنّت میں داخل ہوگا۔ (معجم الاوسط ، 1 / 606 ، حدیث : 2230) ایک مقام پر ارشاد فرمایا : جس نے میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کیاتومیں قیامت کے دن اسے اس کا صلہ دوں گا ۔ (الکامل لابن عدی ، 6 / 425)

ساداتِ کرام کی محبت و اکرام کے باب میں بزرگانِ دین کی سیرت بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے چنانچہ ایک سیّد زادے جب حضرت عمر بن عبد العزیز  رحمۃُ اللہِ علیہ  کے پاس کسی کام سے تشریف لائے تو اس موقع پر آپ نے اُن سےعرض کی : “ اگر آپ کو کوئی کام ہو تو آپ مجھے طلب فرما لیا کریں یا مجھے خط لکھ کر بھیج دیا کیجئے۔ آپ کو اپنے دروازے پر کھڑا دیکھ کر مجھے شرمندگی ہورہی ہے۔ “ (نورالابصار ، ص129) اسی طرح امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس قادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  بھی سادات کرام سے بڑی محبت اور ان کی تعظیم کرتے ہیں؛ ملاقات کے وقت اگر بتادیا جائے کہ یہ سیّد صاحب ہیں تو اکثر سیّد صاحب کا ہاتھ چُوم لیا کرتے ہیں ، ایسا بھی دیکھا گیا کہ سید صاحب کو اپنے برابر میں بٹھا لیا ، یہاں تک کہ آپ ساداتِ کِرام کے بچّوں سے بہت محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں۔

پیاری اسلامی بہنو! ان احادیث وواقعات سے سبق ملتا ہے کہ اللہ پاک کی رِضا حاصل کرنے اور پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لئے ہمیں بھی اپنے دل میں اہلِ بیت کی عقیدت و محبت کا چراغ روشن رکھنا چاہئے اور ہمہ وقت اہلِ بیت کی خیر خواہی کے لئے کوشاں رہنا چاہئے ، لہٰذا سادات کرام سے محبت کریں ، ان کی تعظیم کریں ، ان کے ساتھ خیرخواہی والا سلوک کریں اور دیگر لوگوں پر انہیں فوقیت دیں۔ آپ کے محلے میں اگر ساداتِ کرام کے گھر ہیں تو وقتاً فوقتاً انہیں تحائف پیش کرتے رہیں ، بالخصوص جو ساداتِ کرام مالی اعتبار سے کمزور ہیں ان کا خاص خیال رکھیں۔ یادرکھیں!ساداتِ کرام کے ساتھ لین دین کا انداز اس طرح کا نہ ہو کہ وہ خود کو کمتر محسوس کریں۔ اپنے گھر پر ہونے والی تقریبات میں انہیں ضرور مدعو کریں۔ خوشی و غمی کے موقع پر ان کے ہاں جاتے رہیں اور ضرورت کے وقت ہر ممکن تعاون کریں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن


Share

Articles

Comments


Security Code