استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے

استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے

اُمِّ میلاد عطّاریہ

ماہنامہ صفر المظفر1442ھ

مسلسل گرنے والا پانی کا ننھا سا قطرہ مضبوط ترین چٹان میں بھی سوراخ کردیتا ہے ، چھوٹی چھوٹی نظر آنے والی چیونٹیاں اپنے وُجود سے کئی گنا بڑے گوشت کے ٹکڑے پر چمٹ جاتی ہیں  تو دیکھنے والا گمان کرتا ہے کہ یہ ننھی سی مخلوق اتنے بڑے ٹکڑے کو بِل میں کیسے لے کر جائے گی؟ لیکن اس معمولی سی نظر آنے والی مخلوق کی اِستِقامت اس گمان کو غلط ثابت کردیتی ہے۔

جب ایک بےجان چیز اور ننھے سے جاندار کی استقامت اسے کامیابی سے ہم کنار کروادیتی ہے تو کیا اَشْرَفُ المخلوقات کا لقب پانے والا اس وَصْف کو اپنائے تو اپنا مقصود حاصل نہیں کرسکتا؟

پیاری اسلامی بہنو! مسلمان ہونے کے ناطے اللہ پاک کی رضاحاصل کرنا ، مصطفےٰ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی شفاعت پانا اور جنّت میں داخل ہونا ہماری اولین ترجیح ہونا چاہئے اور ان سب کےلئے ہمیں نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے میں استقامت کو لازم پکڑنا ہے۔

اِستِقامَت کیا ہے؟ استقامت کے معنیٰ ہیں پائیداری ، ہمیشگی ، ثابت قدمی اور کسی چیز پر مضبوط رہنا “ شرعاً اللہ پاک کی فرماں برداری  پر ہمیشگی اختیار کرنے کو استقامت کہتے ہیں۔ “

اَلْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ : یعنی استقامت کرامت سے بھی بڑھ کر ہے ، سب سے بہتر عمل وہ ہے جو اگرچہ تھوڑا ہو مگر ہو مستقل جیساکہ ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : اتنے ہی عمل کی عادت بناؤ جتنا تم کرسکتے ہو کہ بہترین عمل وہ ہے جو ہمیشہ ہو اگرچہ کم ہی ہو۔ ( ابن ماجہ ، 4 / 487 ، حدیث : 4240 ) حضرت ابو علی جُوزْجانی   رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں : اِستِقامَت اختیار کرو ، کرامت کے طلب گار مت بنو! کیوں کہ تمہارا نفس کرامت کی طلب میں ہے جبکہ تمہارا رب تم سے استقامت چاہتا ہے۔ ( رسالہ قشیریہ ، ص240)

کئی اسلامی بہنیں عمل شروع تو کرلیتی ہیں مگر اس میں استقامت حاصل نہیں کرپاتیں ، چند دن کے بعد سُستی ہوجاتی ہے۔ آئیے! استقامت اپنانے میں چند مددگار نِکات (Points) ملاحظہ کرتے ہیں :

* جس کام میں ہم ہمیشگی کے خواہاں ہیں سب سے پہلے تو اس کی اہمیت اور فضائل پیشِ نظر ہونے چاہئیں * سچی نیت اور ارادے کی پختگی بھی ضروری ہے کہ جب تک کسی چیز کا پختہ ارادہ نہیں ہوگا تب تک اس میں استقامت کا ملنا ناممکن (Impossible) ہے * کٹھن مصیبتوں اور پریشانیوں میں اَسلاف کی ثابت قدمی کے واقعات کا مطالعہ کریں * عمل میں میانہ روی (Moderation)  اختیار کریں کہ تیز بھاگ کر جلد تھک ہار کر بیٹھ جانے سے آہستہ آہستہ منزل کی طرف رواں دواں رہنا بہتر ہے * اِستِقامَت پانے کی راہ میں حائل چیزوں  سے بچیں مثلاً بُری صحبت ، مشکلات پر بےصبری اور نتائج کے حُصول میں جلد بازی سے بچیں * استقامت حاصل کرنے کے ذرائع اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کریم سے دُعا بھی کرتی رہیں مثلاً یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوْبَنَا عَلٰی دِیْنِکَ یعنی اے دِلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دِلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔


Share

Articles

Comments


Security Code