اللہ والوں سے مدد (قسط:02)

اسلامی عقائد و معلومات

اللہ والوں سے مدد ( قسط : 02 )

*مولانا عدنان چشتی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر2022

اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ مستقل اور حقیقی مددگار اللہ کریم کی ذات ہے۔اعمال ، افعال اور بندوں کا مددگار ہونا اسی کی عطا سے ہے۔ اللہ کریم نہ چاہے تو کوئی کسی کی ذرّہ برابر بھی مدد نہیں کر سکتا۔

اللہ والوں کی مدد حقیقت میں اللہ پاک ہی کی مدد ہے جیساکہ سراجُ الہند حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ کسی غیر سے اُس ہی پر اعتماد کرتے ہوئے یوں مدد مانگنا کہ اُسے اللہ کریم کی مدد کا مظہربھی نہ سمجھے یہ حرام ہے۔ اگر توجہ اللہ کریم کی طرف ہے اور اس  ( غیر )  کو مددِ الٰہی کا مظہر سمجھ کر اور اللہ پاک کے مقرر کردہ اسباب اور حکمت پر نظر کرتے ہوئے غیر کی مدد کو ظاہراً مدد کرنا جانے تو یہ عرفان  ( معرفتِ الٰہی )  سے دور نہیں اور شریعت میں بھی جائز ہے اور اس قسم کی استعانت بالغیر انبیا و اولیا نے بھی کی ہے۔اصل میں یہ اللہ پاک کے غیر سے مانگنا نہیں بلکہ اس ہی کی مدد ہے۔  [1]

امامِ اہلِ سنّت ، امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ مدد مانگنے کے مسئلے کی وضاحت یوں فرماتے ہیں : کسی سے حقیقی استعانت یہ ہے کہ اُسے قادر بالذّات ، مالک مستقل اور غنی وبے نیاز جانے اس طرح کہ بے عطائے الٰہی وہ خود اپنی ذات سے اس کام کی قدرت رکھتاہے ، اس معنی میں تو ہر مسلمان کے نزدیک مدد مانگنا شرک ہے۔ کوئی مسلمان غیر کے ساتھ اس معنی کا ہرگز ہرگز ارادہ نہیں کرتا بلکہ واسطہ وصولِ فیض اور ذریعہ و وسیلۂ قضائے حاجات جانتے ہیں اور یہ قطعاً حق ہے۔ خود اللہ ربُّ العزت نے قرآنِ عظیم میں حکم فرمایا :  ( وَابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ)اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔  [2]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اس معنی کا لحاظ رکھتے ہوئے اللہ والوں سے مدد مانگنا آیتِ کریمہ  (اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ ( ۴ ) ) کے خلاف نہیں۔  [3](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : استعانت بالغیر وہی ناجائز ہے کہ اس غیر کو مظہرِ عونِ الٰہی  ( اللہ کی مدد کا مظہر )  نہ جانے بلکہ اپنی ذات سے اعانت  ( مدد )  کا مالک جان کر اس پر بھروسا کرے ، اور اگر مظہرِ عَونِ الٰہی سمجھ کر استعانت بالغیر کرتا ہے تو شرک و حرمت بالائے طاق ، مقامِ معرفت کے بھی خلاف نہیں خود حضرات انبیاء و اولیا ء علیہم الصلوٰۃ والسلام نے ایسی استعانت بالغیر کی ہے۔  [4]

قراٰنِ پاک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اپنے حواریوں سے مدد طلب کرنا یوں بیان کیا گیا ہے :  ( قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-) ترجمۂ کنزُ الایمان : بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں۔  [5](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

جب یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان کے دشمن بن گئے تو آپ علیہ السلام نے اُس وقت فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی طرف ہوکر میرا مددگار بنے۔ اس پر حواریوں نے آپ کی مدد کا وعدہ کیا۔  [6] حواری وہ مخلصین ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین کے مددگار تھے اور آپ پر پہلے پہل ایمان لائے ، یہ بارہ آدمی تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بوقت ِمصیبت اللہ  کے بندوں سے مدد مانگنا سنت ِپیغمبر ہے۔  [7]

حدیثِ پاک میں تو ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کتنے صاف الفاظ میں ان لوگوں سے مدد مانگنے کا فرمایا ہے کہ جو ہمیں نظر نہیں آتے جیسا کہ

ویرانے میں جانور بھاگ جائے تو ؟  اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کا (سواری کا )  جانور ویران زمین میں بھاگ جائے تو اُسے چاہئے کہ یوں پکارے : یَا عِبَادَ اللہ ! اِحْبِسُوْا ، یَا عِبَادَ اللہ ! اِحْبِسُوْا یعنی اے اللہ کے بندو ! روک دو ، اے اللہ کے بندو ! روک دو ، فَاِنَّ لِلَّهِ حَاضِرًا فِي الْاَرْضِ سَيَحْبِسُهٗ بے شک اللہ پاک کے کچھ ایسے بندے زمین میں موجود ہیں جو اُسے روک دیں گے۔  [8]

حضرت علّامہ علی قاری رحمۃُ اللہ علیہ اسی طرح کی روایت کے تحت فرماتے ہیں : ” عِبَادَ اللہسے مراد فرشتے ہیں ، یا مسلمان جنّات یا رِجالُ الغیب کہ جنہیں اَبدال کہا جاتا ہے۔  [9]

حضرت عُتبہ بن غَزوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اِذَا اَضَلَّ اَحَدُكُمْ شَيْئًا اَوْ اَرَادَ اَحَدُكُمْ عَوْنًا وَهُوَ بِاَرْضٍ لَيْسَ بِهَا اَنِيسٌ جب تم میں سے کوئی آدمی کسی چیز کو گم کردے یا اسے ایسی جگہ مدد کی ضرورت ہو کہ جہاں کوئی یار و مددگار نہ ہو تو اسے چاہئے یوں کہے : يَا عِبَادَ اللهِ اَغِيثُونِي ، يَا عِبَادَ اللهِ اَغِيثُونِي اے اللہ کے بندو ! میری مدد کرو ، اے اللہ کے بندو ! میر ی مدد کرو فَاِنَّ لِلَّهِ عِبَادًا لَا نَرَاهُمْ بے شک اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ جنہیں ہم نہیں دیکھتے۔

حضرت امام طبرانی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَقَدْ جُرِّبَ ذٰلِكَ یعنی یہ تجربہ شدہ عمل ہے۔  [10]

حضرت علامہ علی بن سلطان قاری رحمۃُ اللہ علیہ اسی طرح کی ایک حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : بعض ثقہ و قابلِ اعتماد علمائے کرام نے فرمایا : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ يَحْتَاجُ اِلَيْهِ الْمُسَافِرُون یہ حدیث حسن ہے ، مسافِروں کو اس کی ضَرورت پڑتی ہے ، وَرُوِيَ عَنِ الْمَشَائِخِ اَنَّهٗ مُجَرَّبٌ قُرِنَ بِهِ التَّبَجُّح اور مشائخِ کرام سے مروی ہے کہ یہ ایسا مُجرَّب  ( یعنی تجرِبہ شدہ )  عمل ہے کہ جس سے خوشی ملتی ہے۔  [11]

اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت اس طرح کی تین احادیث نقل کر کے لکھتے ہیں : یہ حدیثیں کہ تین صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہمنے روایت فرمائیں قدیم سے اکابر علمائے دین رحمہم اللہ تعالیٰ کی مقبول و معمول ومجرب ہیں۔  [12]

سواری کس نے روک دی ؟  جلیلُ القدر امام ، شارحِ مسلم حضرت امام شرف الدین نَوَوِی شافعی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مجھے میرے ایک جید عالمِ دین استاد صاحب نے بتایا : ایک مرتبہ ریگستان میں ان کا خچر بھاگ گیا ، اُنہیں اِس حدیثِ پاک کا علم تھا ، اُنہوں نے یہ کلمات  ( یَاعِبَادَ اللہ اِحْبِسُوْا )  کہے تو اللہ کریم نے اُسی وقت سواری روک دی۔

حضرت امام نووی رحمۃُ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : ایک بار میں لوگوں کے ساتھ تھا کہ ایک جانور بھاگ نکلا لوگ اسے پکڑنے سے عاجز آگئے تو میں نے یہی  ( یَاعِبَادَ اللہ اِحْبِسُوْا )  کہا : تو وہ جانور اسی وقت وہیں رُک گیا۔  [13]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*   ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ ، کراچی



[1] تفسیر عزیزی ، 1 / 10

[2] پ6 ، المآئدۃ : 35

[3] فتاویٰ رضویہ ، 21 / 303بحذفٍ و اضافۃٍ

[4] فتاویٰ رضویہ ، 21 / 325

[5] پ 3 ، اٰل ِعمرٰن : 52

[6] تفسیر خازن ، 1 / 253

[7] صراط الجنان ، 1 / 485 ملخصاً

[8] مسند ابی یعلیٰ ، 4 / 438 ، حدیث : 5247

[9] الحرز الثمین للحصن الحصین ، ص933

[10] معجم کبیر ، 17 / 117 ، حدیث : 290

[11] مرقاۃ المفاتیح ، 5 / 295

[12] فتاویٰ رضویہ ، 21 / 318

[13] الاذکار ، ص181ملخصاً


Share

Articles

Comments


Security Code