سُنی سنائی باتیں پھیلانے کا نقصان

اسلام کی روشن تعلیمات

سنی سنائی باتیں پھیلانے کا نقصان

*محمد اُحد رضا عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ نومبر 2023

ٹیچر کلاس میں داخل ہوئے اور ایک پرچی پر یہ خبر لکھی کہ ”راولپنڈی میں دو فریقین کے درمیان جھگڑا دونوں طرف سے لاٹھیاں، گولیاں چلیں جس میں تین افراد کی موت جبکہ چار افراد زخمی ہوئے“ اور اپنے قریب بیٹھے اسٹوڈنٹ کو دکھاتے ہوئے کہا: اب آپ میں سے ہر ایک اس بات کو دوسرے کے کان میں بتائے، جب سب سے آخر میں بیٹھے اسٹوڈنٹ تک یہ سلسلہ مکمل ہوا تو اب ٹیچر نے اس آخری اسٹوڈنٹ کو کان میں بتائی گئی خبر بلند آواز سے بیان کرنے کو کہا تو اس نے کچھ یوں اطلاع دی :”پنڈی میں جھگڑا ہوا جس میں آٹھ آدمی قتل جبکہ تین شدید زخمی ہوئے۔۔۔“

کہنے کو تو یہ ایک واقعہ ہے لیکن اس میں سیکھنے کی بہت سی باتیں ہیں۔شاید کبھی ہمارے ساتھ بھی اس طرح ہوا ہو کہ کوئی سنسنی خیز،دل ہلا دینے والی خبر ہم تک پہنچی ہو جو بعد میں جھوٹی اور فیک ثابت ہوئی ہو یا حقیقت میں معاملہ کچھ اور تھا جو پھیلتے پھیلتے مذکورہ پریکٹیکل اسٹوری کی طرح رد و بدل اور کمی زیادتی کا شکار ہو گیا ہو مگر یاد رکھئے !خبر پھیلنے سے لے کر فیک ثابت ہونے تک کئی نقصان دہ اور بھیانک نتائج متوقع ہیں اور بعض مرتبہ یہی جھوٹی خبر یں کسی سچی اذیت ناک خبر کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ معاشرے میں اڑتی فیک باتیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا انتشار،لڑائی جھگڑوں اورفسادات کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون کو بھی متاثر کرتی ہیں اور اس کے ساتھ خواہ مخواہ کے فضول و بے جا تبصرے ماحول کو مزید دہشت ناک بنا دیتے ہیں۔ معاشی (لین دین کے متعلق)سرگرمیاں اور نظامِ زندگی بھی اس کے سبب متأثر ہوتےہیں۔ اسی طر ح مذاق میں پھیلائی گئی جھوٹی خبر بسااوقات سخت نقصان کا باعث بنتی ہے جیسا کہ فرسٹ اپریل کو اپریل فول کے نام پر ہرسال مختلف واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔

بہرحال ان سب نقصانات اور ذہنی اور ماحولیاتی الجھنوں سے بچنے کے لئے عقل کا تقاضاہے کہ ایسی سنسنی اور دہشت پھیلانے والی خبروں پر آنکھیں بند کرکے اعتماد نہ کیا جائے اور نہ ہی انہیں آگے بڑھایا جائے اور اگر آگے کسی کو بتانا ضروری ہی ہو تو پہلے معلومات کے ذرائع (sources of information) کو دیکھ لیا جائے کہ وہ کس حد تک بھروسے کے لائق ہیں۔

ہمارا دینِ اسلام ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶))

ترجَمۂ کنزُ العِرفان: اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو انجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔ ([1]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

سُبْحٰنَ اللہ! دینِ اسلام کی کیا خوبصورت تعلیمات ہیں کہ اسلام ان کاموں سے رُکنے کا حکم دیتا ہے کہ جو معاشرتی امن  کے خاتمے کا باعث ہیں اور ان کاموں کا حکم دیتا ہے جن سے معاشرہ امن و اتفاق کا گہوارہ بن سکے۔لہٰذا گھر بار کوچہ و بازار میں بات کی تصدیق اور حقیقتِ حال جانے بغیر انسان ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے کہ جس سے بعد میں اسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔

یوں ہی حدیثِ مبارکہ میں بھی ہمیں اس کے متعلق خبردار کیا گیا ہے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہرسنی سنائی بات آگے بیان کردے۔([2])

 اسی طرح بعض اوقات شیطان بھی انسانی شکل میں آکر جھوٹی خبریں اڑاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :”شیطان آدَمی کی صورت اختیار کر کے لوگوں کے پاس آتا ہے اورانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے۔ لوگ پھیل جاتے ہیں تو اُن میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص سے سُنا جس کی صورت پہچانتا ہوں مگریہ نہیں جانتا کہ اُس کا نام کیا ہے،وہ یہ کہتا ہے۔“([3])  مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ مذکورہ روایت کے اِس حصّے”انہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے “کے تَحْت فرماتے ہیں:” کسی واقِعے کی جھوٹی خبر یا کسی مسلمان پر بُہتان یا فَساد وشرارت کی خبرجس کی اَصْل ( یعنی حقیقت ) کچھ نہ ہو۔“([4])

دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں بھی سوچ سمجھ کر درست اور حقیقتِ حال کے مطابق محتاط انداز میں بات کرنے والا بنائے، ہمیں خیر پھیلانے کا ذریعہ بنائے اور ہر طرح کے فتنہ وفساد کی ترویج واشاعت سے محفوظ رکھے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، شعبہ لغت، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])پ26،الحجرات:6

([2])مسلم ،ص 17، حدیث: 7

([3])مسلم، ص 18، حدیث: 17

([4])مراٰۃ المناجیح،6/477


Share

Articles

Comments


Security Code